اس کا چہرہ بھی سناتا ہے کہانی اس کی
چاہتی ہوں کہ سنوں اس سے زبانی اس کی
وہ ستم گر ہے تو اب اس سے شکایت کیسی
اور ستم کرنا بھی عادت ہے پرانی اس کی
بیش قیمت ہے یہ موتی سے مری پلکوں پر
چند آنسو ہیں مرے پاس نشانی اس کی
اس جفا کار کو معلوم نہیں وہ کیا ہے
بے مروت کو ہے تصویر دکھانی اس کی
ایک وہ ہے نظر انداز کرے ہے مجھ کو
ایک میں ہوں کہ دل و جاں سے دوانی اس کی
تم کو الفت ہے قمرؔ اس سے تو اب کہہ دینا
سامنے سب کے سنا دینا کہانی اس کی