اس کشاکش میں یہاں عمر رواں گزرے ہے
جیسے صحرا سے کوئی تشنہ دہاں گزرے ہے
اس طرح تلخیٔ ایام سے بڑھتی ہے خراش
جیسے دشنام عزیزوں پہ گراں گزرے ہے
اس طرح دوست دغا دے کے چلے جاتے ہیں
جیسے ہر نفع کے رستے سے زیاں گزرے ہے
یوں بھی پہنچے ہیں کچھ افسانے حقیقت کے قریب
جیسے کعبہ سے کوئی پیر مغاں گزرے ہے
ہم گنہ گار جو اس سمت نکل جاتے ہیں
ایک آواز سی آتی ہے فلاں گزرے ہے