اس کو ہمراز بھی بنا نہ سکی
حال دل بھی سنا نہ سکی
اک تماشا سا بن گیا رونا
میں اسے اشک بھی دکھا نہ سکی
اب اسے ڈھونڈتی ہے میری نظر
پاس رہ کر جسے بلا نہ سکی
وہ سمجھتا نہیں ہے دل کی بات
اور شکایت بھی میں چھپا نہ سکی
اپنی حد میں رہا دست ستم
ضبط اپنا میں آزما نہ سکی
رت جگے کھیلتے تھے آنکھوں میں
خواب کوئی بھی میں سجا نہ سکی
پا لیا یوں تو اک جہاں صدف
ایک تیری کمی بھلا نہ سکی