اس کے کوچے میں مسیحا ہر سحر جاتا رہا
بے اجل واں ایک دو ہر رات مر جاتا رہا
کوئے جاناں میں بھی اب اس کا پتہ ملتا نہیں
دل مرا گھبرا کے کیا جانے کدھر جاتا رہا
جانب کہسار جا نکلا جو میں تو کوہ کن
اپنا تیشہ میرے سر سے مار کر جاتا رہا
نے کشش معشوق میں پاتا ہوں نے عاشق میں جذب
کیا بلا آئی محبت کا اثر جاتا رہا
واہ رے اندھیر بہر روشنیٔ شہر مصر
دیدۂ یعقوب سے نور نظر جاتا رہا
نشہ ہی میں یا الٰہی میکشوں کو موت دے
کیا گہر کی قدر جب آب گہر جاتا رہا
اک نہ اک مونس کی فرقت کا فلک نے غم دیا
درد دل پیدا ہوا درد جگر جاتا رہا
حسن کھو کر آشنا ہم سے ہوا وہ نونہال
پہنچے تب زیر شجر ہم جب ثمر جاتا رہا
رنج دنیا سے فراغ ایذا دہندوں کو نہیں
کب تپ شیرا اتری کس دن درد سر جاتا رہا
فاتحہ پڑھنے کو آئے قبر آتشؔ پر نہ یار
دو ہی دن میں پاس الفت اس قدر جاتا رہا