اس کے کوچے کی طرف تھا شب جو دنگا آگ کا
آہ سے کس کی پڑا تھا واں پتنگا آگ کا
جنگ ہے کس آتشیں خو سے جو رہتا ہے مدام
تیغ عریاں کی طرح ہر شعلہ ننگا آگ کا
توشے دانوں میں بھرے رہتے ہیں ان کے کارتوس
اس لیے خطرہ رکھے ہے ہر تلنگا آگ کا
تہہ سے اس کی سرخ ہو کر کب نہ نکلی موج برق
کب شفق نے خوں میں پیراہن نہ رنگا آگ کا
شمع کے شعلے پہ موقوف اس کا جل جانا نہیں
مصحفیؔ جس جا ہو عاشق ہے پتنگا آگ کا