اس کے ہونٹوں پہ میرا نام نہیں ہے
اسی لیے یہ بندہ بدنام نہیں ہے
لوگوں کو میرے خلاف بھڑکاتی رہتی ہے
لگتا ہے اسے اور کوئی کام نہیں ہے
جب تک دو چار کو تنگ نہ کر لے
تب تک ملتا اسےآرام نہیں ہے
میں خالی جیب کیسے اس سے ملنے جاؤں
ابھی تک آیا اس کا پیغام نہیں ہے
میرے دشمن بھی میری شاعری پڑھتے ہیں
اصغر اپنا پیغام پہنچانے میں ناکام نہیں ہے