اسباب پر ہی جس نے اپنی نظر جمائی
اپنی ہی تو اسی نے نیّا ہی بس ڈبائی
اپنی نظر کسی نے جب غیب پر جمائی
غلبہ ہی تو دلایا نصرت بھی تو دلائی
بگڑی ہوئی تو قسمت اس کی سنورتی جائے
اسباب سے ہی جس نے اپنی نظر ہٹائی
اسباب کو ہی جس نے آقا سمجھ لیا ہے
تائیدِ غیبی پھر تو نہ عود کر بھی آئی
مخلوق کو تو درجہ خالق کا نہ کبھی دیں
اس نے کبھی تو شاہوں کو خاک بھی چٹائی
پل میں کسی کی الٹی گنتی شروع ہو جائے
پل میں امیر کو بھی کشکول ہی تھمائی
پل میں بہار آئے پل میں خزاں بھی آئے
پل میں کہیں خوشی تو غم کی گھٹا بھی چھائی
پل کا نہیں بھروسہ یہ اثر نے ہے دیکھا
توشہ ہو آخرت کا اس نے بقا ہی پائی