ذکر جو شروع ہوا اس کے حسن و جمال کا
دُور دُور نظر نہ آیا کوئی اس کی مثال کا
کیسے صبح کیسے شام کیسے زندگی کرتا ہوں
کیا کرو گے جان کے حال مجھ خستہ حال کا
کہیں اُمید کا کوئی ستارا نظر نہیں آیا
چپہ چپہ چھان مارا ابر بر شگال کا
میرے قلم سے درد ٹپکنے کا باعث
اک لمحہ نہیں شما ر ہے مہ و سال کا
اُس ہرجائی کے کارن رُسوا ہوا گلی گلی
ورنہ اشفاق تو آدمی تھا کمال کا