اغیار چھوڑ مجھ سیں اگر یار ہووے گا
Poet: Siraj Aurangabadi By: farooq, khi
اغیار چھوڑ مجھ سیں اگر یار ہووے گا
شاید کہ یار محرم اسرار ہووے گا
بوجھے گا قدر مجھ دل آشفتہ حال کی
پھاندے میں زلف کے جو گرفتار ہووے گا
بے فکر میں نہیں کہ صنم مست خواب ہے
کیا کیا بلا کرے گا جو بیدار ہووے گا
پنہاں رکھا ہوں درد کوں لوہو کی گھونٹ پی
کہتا نہیں کسی سیں کہ اظہار ہووے گا
بزم جنوں میں ساغر وحشت پیا جو کوئی
غفلت سیں عقل و ہوش کی ہشیار ہووے گا
تیری بھنووں کی تیغ کے پانی کوں دیکھ دل
اٹکا ہے اس سبب کہ ندی پار ہووے گا
رنگیں نہ کر توں دل کا محل نقش عیش سیں
غم کے تبر سیں مار کہ مسمار ہووے گا
برجا ہے یار مجھ پہ اگر مہربان ہے
بلبل پہ گل بغیر کسے پیار ہووے گا
جاتا نہیں ہے یار کی شمشیر کا خیال
معلوم یوں ہوا کہ گلے ہار ہووے گا
انکار مجھ کوں نیں ہے تری بندگی ستی
یاں کیا ہے بلکہ حشر میں اقرار ہووے گا
مجھ پاس پھر کر آوے اگر وو کتاب رو
مکتب میں دل کے درس کا تکرار ہووے گا
صحن چمن میں دیکھ تیرے قد کی راستی
ہر سرد تجھ سلام کوں خم دار ہووے گا
اس چشم نیم خواب کی دیکھے اگر بہار
نرگس چمن میں تختۂ دیوار ہووے گا
اس زلف عنبریں سیں جو یک تار جھڑ پڑے
ہر خوب رو کوں طرۂ دستار ہووے گا
اے جان میرے پاس سیں یک دم جدا نہ ہو
جینا ترے فراق میں دشوار ہووے گا
رکھتا ہے گرچہ آئنہ فولاد کا جگر
تیر نگہ کے سامنے لاچار ہووے گا
مت ہو شب فراق میں بے تاب اے سراجؔ
امید ہے کہ صبح کوں دیدار ہووے گا
سراپا موم ہو یا سنگ ہو جا
تجھے جیوں غنچہ گر ہے درد کی بو
لہو کا گھونٹ پی دل تنگ ہو جا
کہا کس طرح دل نے تجھ کوں اے غم
کہ دل کی آرسی پر زنگ ہو جا
یہی آہوں کے تاروں میں صدا ہے
کہ بار غم سیں خم جیوں چنگ ہو جا
دعا ہے اے رہ غم طول عمر کا
قدم پر ہے تو سو فرسنگ ہو جا
گلے میں ڈال رسوائی کی الفی
الف کھنچ آہ کا بے ننگ ہو جا
برہ کی آگ میں ثابت قدم چل
سراجؔ اب شمع کا ہم رنگ ہو جا
sarapa mom ho ya sang ho ja
tujhe jyun ghuncha gar hai dard ki bu
lahu ka ghoont pi dil tang ho ja
kaha kis tarah dil ne tujh kun ai gham
ki dil ki aarsi par zang ho ja
yahi aahon ke taron mein sada hai
ki bar e gham sin KHam jyun chang ho ja
dua hai ai rah e gham tul e umr ka
qadam par hai to sau farsang ho ja
gale mein Dal ruswai ki alfi
alif khinch aah ka be-nang ho ja
birah ki aag mein sabit-qadam chal
siraj ab shama ka ham-rang ho ja
نہ تو تو رہا نہ تو میں رہا جو رہی سو بے خبری رہی
شہ بے خودی نے عطا کیا مجھے اب لباس برہنگی
نہ خرد کی بخیہ گری رہی نہ جنوں کی پردہ دری رہی
کبھی سمت غیب سیں کیا ہوا کہ چمن ظہور کا جل گیا
مگر ایک شاخ نہال غم جسے دل کہو سو ہری رہی
نظر تغافل یار کا گلہ کس زباں سیں بیاں کروں
کہ شراب صد قدح آرزو خم دل میں تھی سو بھری رہی
وو عجب گھڑی تھی میں جس گھڑی لیا درس نسخۂ عشق کا
کہ کتاب عقل کی طاق پر جوں دھری تھی تیوں ہی دھری رہی
ترے جوش حیرت حسن کا اثر اس قدر سیں یہاں ہوا
کہ نہ آئینہ میں رہی جلا نہ پری کوں جلوہ گری رہی
کیا خاک آتش عشق نے دل بے نوائے سراجؔ کوں
نہ خطر رہا نہ حذر رہا مگر ایک بے خطری رہی
توں ہر اک بات میں دل دار کی سوگند نہ کھا
روح چندر بدن اے بو الہوس آزردہ نہ کر
خوب نہیں تربت مہیار کی سوگند نہ کھا
یہ ادا سرو میں زنہار نہیں اے قمری
یار کے قامت و رفتار کی سوگند نہ کھا
خوف کر خط کی سیاہی ستی اے وعدہ خلاف
ہر گھڑی مصحف رخسار کی سوگند نہ کھا
اپنی آنکھوں کی قسم کھا کہ لیا نہیں میں نے
جان لے کر دل بیمار کی سوگند نہ کھا
پیچ دے دے کے مرے دل کوں پریشاں تو کیا
ناحق اس زلف گرہ دار کی سوگند نہ کھا
تاب اس رخ کی تجلی کی نہیں تجھ کوں سراجؔ
توں عبث شعلۂ دیدار کی سوگند نہ کھا
شاید کہ یار محرم اسرار ہووے گا
بوجھے گا قدر مجھ دل آشفتہ حال کی
پھاندے میں زلف کے جو گرفتار ہووے گا
بے فکر میں نہیں کہ صنم مست خواب ہے
کیا کیا بلا کرے گا جو بیدار ہووے گا
پنہاں رکھا ہوں درد کوں لوہو کی گھونٹ پی
کہتا نہیں کسی سیں کہ اظہار ہووے گا
بزم جنوں میں ساغر وحشت پیا جو کوئی
غفلت سیں عقل و ہوش کی ہشیار ہووے گا
تیری بھنووں کی تیغ کے پانی کوں دیکھ دل
اٹکا ہے اس سبب کہ ندی پار ہووے گا
رنگیں نہ کر توں دل کا محل نقش عیش سیں
غم کے تبر سیں مار کہ مسمار ہووے گا
برجا ہے یار مجھ پہ اگر مہربان ہے
بلبل پہ گل بغیر کسے پیار ہووے گا
جاتا نہیں ہے یار کی شمشیر کا خیال
معلوم یوں ہوا کہ گلے ہار ہووے گا
انکار مجھ کوں نیں ہے تری بندگی ستی
یاں کیا ہے بلکہ حشر میں اقرار ہووے گا
مجھ پاس پھر کر آوے اگر وو کتاب رو
مکتب میں دل کے درس کا تکرار ہووے گا
صحن چمن میں دیکھ تیرے قد کی راستی
ہر سرد تجھ سلام کوں خم دار ہووے گا
اس چشم نیم خواب کی دیکھے اگر بہار
نرگس چمن میں تختۂ دیوار ہووے گا
اس زلف عنبریں سیں جو یک تار جھڑ پڑے
ہر خوب رو کوں طرۂ دستار ہووے گا
اے جان میرے پاس سیں یک دم جدا نہ ہو
جینا ترے فراق میں دشوار ہووے گا
رکھتا ہے گرچہ آئنہ فولاد کا جگر
تیر نگہ کے سامنے لاچار ہووے گا
مت ہو شب فراق میں بے تاب اے سراجؔ
امید ہے کہ صبح کوں دیدار ہووے گا






