دل لگتا نہں اب تو کتاب میں
ہائے کیا کروں زندگی پھنس گئی عذاب میں
اک غلطی پہ دیتے ہیں سزا یہ سو سو بار
لگتا ہے ایسے جیسے تھانے سے آگیا ہو تھانیدار
اب کیا کریں حاصل اس قائد کے جھنڈے سے
کچھ ڈر لگتا ہے حساب سے کچھ سر کے ڈنڈے سے
سر کے ڈنڈے اب نظر آنے لگے مجھے خواب میں
ہائے کیا کروں زندگی پھنس گئی عذاب میں
پڑھائی سے تو یہ زندگی محال ہے
گر نہ ہو پڑھائی تو زندگی خوشحال ہے
جتنا بھی کرو آئے گی نہ ہم میں تیزی
ہم نہیں انگریز تو کیوں پڑھتے ہیں انگریزی
امتحان میں بھی نہیں ڈالنے دیتے نقل یہ جراب میں
ہائے کیا کروں زندگی پھنس گئی عذاب میں