افلاس
Poet: رشید حسرت By: Rasheed Hasrat, Quettaآج کھائی ہے چار دِن کے بعد
کِتنی مِیٹھی لگی ہے روٹی آج
آؤ ہم اِس کو نوچ کر کھائیں
شرم کیسی ہے، اِس میں کیسی لاج؟؟
حُکمرانوں نے اِنتہا کر دی
بے ضمِیری کی، بے حیائی کی
کِس ڈِھٹائی سے کر رہے ہیں آج
بات یہ اپنی پارسائی کی
سوال میرا فقط حُکمراں سے اِتنا ہے
کہِیں پہ عدل اگر ہے، کہاں ہے، کِتنا ہے؟؟
کہِیں بھی کوئی اِدارہ، جو صاف سُتھرا ہو؟
تباہِیوں کے دھانے پہ مُلک جِتنا ہے
کبھی تھا لُقمۂ و کپڑا، مکان خطرے میں
ابھی تو ساتھ میں عِزّت کے جان خطرے میں
انا کی دوڑ میں ہو، تُم غلام ضِد کے ہو
ہمارا مُلک ہے، پُرکھوں کی آن، خطرے میں
حیا نہِیں ہے تُمہیں بات کیسی کرتے ہو؟
کِسی غرِیب سی بستی میں دیکھو آ کر بھی
بِلکتے بُھوک سے بچّوں کو، زرد چہروں کو
گُزارا کرتے ہیں کُچھ لوگ مٹّی کھا کر بھی
سہُولتوں کی طلب جُرم شہر زادوں کا
مگر جو گاؤں میں ہیں اُن کا جُرم کیا ہے بتا؟
یہ بُوند بُوند کو پانی کی کیوں ترستے ہیں؟
تُمہارے بچّے یہاں رہ سکیں گے آ کے، بتا
ہماری مانگ بھلا کیا ہے، عیش کا ساماں؟
نہیں ہے، مانگتے ہیں صرف ہم تو آب و ناں
نہِیں ہے بس میں اگر وہ بھی پِھر تو چُلّو بھر
کہِیں بھی تُم کو ملے گا کبھی تو آبِ رواں
کمال کیا ہے جو تُم میں ہے پیشرو میں نہ تھا
نچوڑا اُس نے بھی، اب تُم بھی خُوں نِچوڑو گے
دِیۓ جو زخم گِرانی کے پیشرو نے ہمیں
بھرے ہیں پِیپ سے وہ زخم، اُن کو پھوڑو گے
خُدا تباہ کرے تُم سے حُکمرانوں کو
چُرا کے لے کے گئے مُلک کے خزانوں کو
خُدا کی لاٹھی کی آواز تو نہِیں لیکن
اکیلے چھوڑے گا ہرگز نہ بے زبانوں کو
یہ خزاں ہے بہار ہے کیا ہے
سب کو مشکوک تم سمجھتے ہو
خود پہ بھی اعتبار ہے کیا ہے
سوا نیزے پہ چاہیے سورج
جسم میں برف زار ہے کیا ہے
مجھ کو منزل نظر نہیں آتی
دور تک رہ گزار ہے کیا ہے
کوئی آہٹ تلک نہیں ہوتی
میرے اندر مزار ہے کیا ہے
ایک پل بھی نہیں مرا اپنا
زندگانی ادھار ہے کیا ہے
میرے ہمدم ذرا بتا مجھ کو
یہ جوانی خمار ہے کیا ہے
ہے جو مجھ سے اسدؔ گریزاں سا
مصلحت کا شکار ہے کیا ہے
نوید ہو کہ یہ کارِ فضُول کر ہی لیا
نجانے کون سے پاپوں کی فصل کاٹی ہے
دِلوں کو زخم، سو چہروں کو دُھول کر ہی لیا
گُلاب جِن کے لبوں سے چُرا کے لائیں رنگ
بُرا ہو وقت کا اُن کو ببُول کر ہی لیا
یہ ان کے اعلیٰ نسب کی کُھلی دلِیل رہی
کہ دوستوں میں ہمارا شمُول کر ہی لیا
مُقدّمہ ہے یہ کیسا کہ ختم ہوتا نہِیں
جو دَھن تھا پاس سُپُردِ نقُول کر ہی لیا
ہُوئے ہیں فیصلے سے ہم مگر تہہ و بالا
کِیا ہے ماں نے تو ہم نے قبُول کر ہی لیا
عطا تھی اُس کی سو دِل سے لگا لیا ہم نے
دِیے جو خار تو اُن کو بھی پُھول کر ہی لیا
تُمہارے چہرے کی صُبحوں کو ہم ترستے ہیں
کِسی کی زُلف کی راتوں نے طُول کر ہی لیا
رشید درد کی خیرات بٹ رہی تھی کہِیں
سو اپنے نام کا بخرا وصُول کر ہی لیا
لوگ کہتے ہیں مغرور اور کبھی پاگل ہیں کہتے
یوں تو سنتے ہیں ہر روز بہت اچھے الفاظ بھی
مگر ہم لفظوں سے زیادہ لہجے ہیں سمجھتے
بات کرتے ہیں سیدھی اور زہر کی مانند
ہم باتوں باتوں میں بات نہیں بدلتے
خیال رکھتے ہیں رشتوں کے تقد س کا مگر
نا قدری کرنے والوں کو ہم دوبارہ نہیں ملتے
یہ لوگ جو بن بیٹھے ہیں خدا، سُن لیں
ہم رب کے سوا کسی سے نہیں ڈرتے






