اُمّت کا عجب حال ہے سرکارِ مدینہ
دیکھیں جسے غِربال ہے سرکارِ مدینہ
طوفانِ حوادث کے تھپیڑوں میں ہے اُمّت
اَندوہ سے نڈھال ہے سرکارِ مدینہ
دیکھا نہ تھا دنیا کی نگاہوں نے کبھی ، اب
اَخلاق کا وہ کال ہے سرکارِ مدینہ
مطلب کے لیے دیٖن کی خدمت کا تماشا
اِخلاص کا زوال ہے سرکارِ مدینہ
اِخلاص و مروّت کا پتہ اب نہیں مِلتا
اِنصاف بھی پامال ہے سرکارِ مدینہ
رگ رگ میں رواں ہوگیا اب اہلِ جہاں کے
زَہرابۂ زر و مال ، ہے سرکارِ مدینہ
ظالم کے مظالم ہیں فزوں تر مرے آقا
دہشت کی ہری ڈال ہے سرکارِ مدینہ
اے امن کے خوگر ، مرے سرتا پا مروّت
ہو امن یہ سُوال ہے سرکارِ مدینہ
یہ آپ کا صدقہ ہے مُشاہدؔ پہ جہاں میں
جیسا بھی ہے خوش حال ہے سرکارِ مدینہ
٭