الٰہی تیری چوکھٹ پر بھکاری بن کے آیا ہوں
سراپا فقر ہوں عجز و ندامت ساتھ لایا ہوں
بھکاری وہ کہ جس کے پاس جھولی ہے نہ پیالہ ہے
بھکاری وہ جسے حرص و ہوس نے مار ڈالا ہے
متائع دین و دانش، نفس کے ھاتھوں سے لٹوا کر
سکون قلب کی دولت ہوس کی بھینٹ چڑھوا کر
لٹا کر ساری پونجی غفلت و عصیاں کی دلدل میں
سہارا لینے آیا ہوں تیرے کعبہ کے آنچل میں
گناہوں کی لپٹ سے کائنات قلب افسردہ
ارادے مضمحل، ہمت شکستہ، حوصلے مردہ
کہاں سے لاؤں طاقت دل کی سچی ترجمانی کی
کہ اس جھنجال میں گزری ہیں گھڑیاں زندگانی کی
خلاصہ یہ کہ بس جل بھن کے اپنی روح سیاھی سے
سراپا فقر بن کر اپنی حالت کی تباہی سے
تیرے دربار میں لایا ہوں اپنی اب زبوں حالی
تیری چوکھٹ کے لائق ہر عمل سے ہاتھ خالی
یہ تیرا گھے ہے تیرے محل کا دربار ہے مولا
سراپا نور ہے، اک محبت انوار ہے مولا
تیری چوکھٹ کے جو آداب ہیں میں ان سے خالی ہوں
نہیں جس کوسلیقہ مانگنے کا وہ سوالی ہوں
زباں غرق ندامت دل کی ناقص ترجمانی پر
خدایا رحم میری اس زبان بے زبانی پر
یہ آنکھیں خشک ہیں، یا رب انہیں رونا نہیں آتا
سلگھتے داغ ہیں دل میں جنہیں دھونا نہیں آتا
الٰہی تیری چوکھٹ پر بھکاری بن کے آیا ہوں
سراپا فقر ہوں، عجز و ندامت ساتھ لایا ہوں