الٹی ہو گئیں سب تدبیریں کچھ نہ دوا نے کام کیا
Poet: Mir Taqi Mir By: zia, khi
الٹی ہو گئیں سب تدبیریں کچھ نہ دوا نے کام کیا 
 دیکھا اس بیماری دل نے آخر کام تمام کیا
 
 عہد جوانی رو رو کاٹا پیری میں لیں آنکھیں موند 
 یعنی رات بہت تھے جاگے صبح ہوئی آرام کیا
 
 حرف نہیں جاں بخشی میں اس کی خوبی اپنی قسمت کی 
 ہم سے جو پہلے کہہ بھیجا سو مرنے کا پیغام کیا
 
 ناحق ہم مجبوروں پر یہ تہمت ہے مختاری کی 
 چاہتے ہیں سو آپ کریں ہیں ہم کو عبث بدنام کیا
 
 سارے رند اوباش جہاں کے تجھ سے سجود میں رہتے ہیں 
 بانکے ٹیڑھے ترچھے تیکھے سب کا تجھ کو امام کیا
 
 سرزد ہم سے بے ادبی تو وحشت میں بھی کم ہی ہوئی 
 کوسوں اس کی اور گئے پر سجدہ ہر ہر گام کیا
 
 کس کا کعبہ کیسا قبلہ کون حرم ہے کیا احرام 
 کوچے کے اس کے باشندوں نے سب کو یہیں سے سلام کیا
 
 شیخ جو ہے مسجد میں ننگا رات کو تھا مے خانے میں 
 جبہ خرقہ کرتا ٹوپی مستی میں انعام کیا
 
 کاش اب برقعہ منہ سے اٹھا دے ورنہ پھر کیا حاصل ہے 
 آنکھ مندے پر ان نے گو دیدار کو اپنے عام کیا
 
 یاں کے سپید و سیہ میں ہم کو دخل جو ہے سو اتنا ہے 
 رات کو رو رو صبح کیا یا دن کو جوں توں شام کیا
 
 صبح چمن میں اس کو کہیں تکلیف ہوا لے آئی تھی 
 رخ سے گل کو مول لیا قامت سے سرو غلام کیا
 
 ساعد سیمیں دونوں اس کے ہاتھ میں لا کر چھوڑ دیئے 
 بھولے اس کے قول و قسم پر ہائے خیال خام کیا
 
 کام ہوئے ہیں سارے ضائع ہر ساعت کی سماجت سے 
 استغنا کی چوگنی ان نے جوں جوں میں ابرام کیا
 
 ایسے آہوئے رم خوردہ کی وحشت کھونی مشکل تھی 
 سحر کیا اعجاز کیا جن لوگوں نے تجھ کو رام کیا
 
 میرؔ کے دین و مذہب کو اب پوچھتے کیا ہو ان نے تو 
 قشقہ کھینچا دیر میں بیٹھا کب کا ترک اسلام کیا 
  
پات ہرے ہیں پھول کھلے ہیں کم کم باد و باراں ہے
رنگ ہوا سے یوں ٹپکے ہے جیسے شراب چواتے ہیں
آگے ہو مے خانے کے نکلو عہد بادہ گساراں ہے
عشق کے میداں داروں میں بھی مرنے کا ہے وصف بہت
یعنی مصیبت ایسی اٹھانا کار کار گزاراں ہے
دل ہے داغ جگر ہے ٹکڑے آنسو سارے خون ہوئے
لوہو پانی ایک کرے یہ عشق لالہ عذاراں ہے
کوہ کن و مجنوں کی خاطر دشت و کوہ میں ہم نہ گئے
عشق میں ہم کو میرؔ نہایت پاس عزت داراں ہے
اس راہ میں وے جیسے انجان نکلتے ہیں
کیا تیر ستم اس کے سینے میں بھی ٹوٹے تھے
جس زخم کو چیروں ہوں پیکان نکلتے ہیں
مت سہل ہمیں جانو پھرتا ہے فلک برسوں
تب خاک کے پردے سے انسان نکلتے ہیں
کس کا ہے قماش ایسا گودڑ بھرے ہیں سارے
دیکھو نہ جو لوگوں کے دیوان نکلتے ہیں
گہ لوہو ٹپکتا ہے گہ لخت دل آنکھوں سے
یا ٹکڑے جگر ہی کے ہر آن نکلتے ہیں
کریے تو گلہ کس سے جیسی تھی ہمیں خواہش
اب ویسے ہی یہ اپنے ارمان نکلتے ہیں
جاگہ سے بھی جاتے ہو منہ سے بھی خشن ہو کر
وے حرف نہیں ہیں جو شایان نکلتے ہیں
سو کاہے کو اپنی تو جوگی کی سی پھیری ہے
برسوں میں کبھو ایدھر ہم آن نکلتے ہیں
ان آئینہ رویوں کے کیا میرؔ بھی عاشق ہیں
جب گھر سے نکلتے ہیں حیران نکلتے ہیں
پیشانی پر ہے قشقہ زنار ہے کمر میں
نازک بدن ہے کتنا وہ شوخ چشم دلبر
جان اس کے تن کے آگے آتی نہیں نظر میں
سینے میں تیر اس کے ٹوٹے ہیں بے نہایت
سوراخ پڑ گئے ہیں سارے مرے جگر میں
آئندہ شام کو ہم رویا کڑھا کریں گے
مطلق اثر نہ دیکھا نالیدن سحر میں
بے سدھ پڑا رہوں ہوں اس مست ناز بن میں
آتا ہے ہوش مجھ کو اب تو پہر پہر میں
سیرت سے گفتگو ہے کیا معتبر ہے صورت
ہے ایک سوکھی لکڑی جو بو نہ ہو اگر میں
ہمسایۂ مغاں میں مدت سے ہوں چنانچہ
اک شیرہ خانے کی ہے دیوار میرے گھر میں
اب صبح و شام شاید گریے پہ رنگ آوے
رہتا ہے کچھ جھمکتا خوناب چشم تر میں
عالم میں آب و گل کے کیونکر نباہ ہوگا
اسباب گر پڑا ہے سارا مرا سفر میں
شمع روشن کے منہ پہ نور نہیں
کتنی باتیں بنا کے لاؤں ایک
یاد رہتی ترے حضور نہیں
خوب پہچانتا ہوں تیرے تئیں
اتنا بھی تو میں بے شعور نہیں
قتل ہی کر کہ اس میں راحت ہے
لازم اس کام میں مرور نہیں
فکر مت کر ہمارے جینے کا
تیرے نزدیک کچھ یہ دور نہیں
پھر جئیں گے جو تجھ سا ہے جاں بخش
ایسا جینا ہمیں ضرور نہیں
عام ہے یار کی تجلی میرؔ
خاص موسیٰ و کوہ طور نہیں
پر تمامی عتاب ہیں دونوں
رونا آنکھوں کا روئیے کب تک
پھوٹنے ہی کے باب ہیں دونوں
ہے تکلف نقاب وے رخسار
کیا چھپیں آفتاب ہیں دونوں
تن کے معمورے میں یہی دل و چشم
گھر تھے دو سو خراب ہیں دونوں
کچھ نہ پوچھو کہ آتش غم سے
جگر و دل کباب ہیں دونوں
سو جگہ اس کی آنکھیں پڑتی ہیں
جیسے مست شراب ہیں دونوں
پاؤں میں وہ نشہ طلب کا نہیں
اب تو سرمست خواب ہیں دونوں
ایک سب آگ ایک سب پانی
دیدہ و دل عذاب ہیں دونوں
بحث کاہے کو لعل و مرجاں سے
اس کے لب ہی جواب ہیں دونوں
آگے دریا تھے دیدۂ تر میرؔ
اب جو دیکھو سراب ہیں دونوں
کیا پوچھتے ہو الحمدللہ
مر جاؤ کوئی پروا نہیں ہے
کتنا ہے مغرور اللہ اللہ
پیر مغاں سے بے اعتقادی
استغفر اللہ استغفر اللہ
کہتے ہیں اس کے تو منہ لگے گا
ہو یوں ہی یا رب جوں ہے یہ افواہ
حضرت سے اس کی جانا کہاں ہے
اب مر رہے گا یاں بندہ درگاہ
سب عقل کھوئے ہے راہ محبت
ہو خضر دل میں کیسا ہی گمراہ
مجرم ہوئے ہم دل دے کے ورنہ
کس کو کسو سے ہوتی نہیں چاہ
کیا کیا نہ ریجھیں تم نے پچائیں
اچھا رجھایا اے مہرباں آہ
گزرے ہے دیکھیں کیوں کر ہماری
اس بے وفا سے نے رسم نے راہ
تھی خواہش دل رکھنا حمائل
گردن میں اس کی ہر گاہ و بیگاہ
اس پر کہ تھا وہ شہ رگ سے اقرب
ہرگز نہ پہنچا یہ دست کوتاہ
ہے ماسوا کیا جو میرؔ کہیے
آگاہ سارے اس سے ہیں آگاہ
جلوے ہیں اس کے شانیں ہیں اس کی
کیا روز کیا خور کیا رات کیا ماہ
ظاہر کہ باطن اول کہ آخر
اللہ اللہ اللہ اللہ







 
  
  
  
  
  
  
  
  
  
  
 