امی کی یاد میں
Poet: محمد عمیر عابد By: محمد عمیر عابد, Karachiامی خوابوں میں میرے کبھی آیا تو کریں
ہاتھ شفقت سے بالوں میں میرے پھرایا تو کریں
یوں تو موجود ھیں آپ ھم سب میں کہیں
صورت اصلی بھی مگر یاد سے اپنی دکھایا تو کریں
اس زمانہ نے بہت پریشان رکھا تنگ کیا آپ کو
اب تو آزاد ھے ۔۔ ملنے کے لئے آیا تو کریں
اب بھی گرتا ھوں راہ میں چلتے چلتے
تب سہارے کے لئے ہاتھ بڑھایا تو کریں
تھک گیا ہوں امی میں حالات سے لڑتے لڑتے
حوصلہ میرا بڑھانے کو بھی آیا تو کریں
عمر بیت رہیں ھے خواہش میں ساتھ رہنے کی
وقت آخر ھے امی کبھی ساتھ تو بتایا کریں
امی خوابوں میں میرے کبھی آیا تو کریں
ہاتھ شفقت سے بالوں میں میرے پھرایا تو کریں
More Mother Poetry
مجھ کو یقیں ہے سچ کہتی تھیں جو بھی امی کہتی تھیں مجھ کو یقیں ہے سچ کہتی تھیں جو بھی امی کہتی تھیں
جب میرے بچپن کے دن تھے چاند میں پریاں رہتی تھیں
ایک یہ دن جب اپنوں نے بھی ہم سے ناطہ توڑ لیا
ایک وہ دن جب پیڑ کی شاخیں بوجھ ہمارا سہتی تھیں
ایک یہ دن جب ساری سڑکیں روٹھی روٹھی لگتی ہیں
ایک وہ دن جب آؤ کھیلیں ساری گلیاں کہتی تھیں
ایک یہ دن جب جاگی راتیں دیواروں کو تکتی ہیں
ایک وہ دن جب شاموں کی بھی پلکیں بوجھل رہتی تھیں
ایک یہ دن جب ذہن میں ساری عیاری کی باتیں ہیں
ایک وہ دن جب دل میں بھولی بھالی باتیں رہتی تھیں
ایک یہ دن جب لاکھوں غم اور کال پڑا ہے آنسو کا
ایک وہ دن جب ایک ذرا سی بات پہ ندیاں بہتی تھیں
ایک یہ گھر جس گھر میں میرا ساز و ساماں رہتا ہے
ایک وہ گھر جس گھر میں میری بوڑھی نانی رہتی تھیں
جب میرے بچپن کے دن تھے چاند میں پریاں رہتی تھیں
ایک یہ دن جب اپنوں نے بھی ہم سے ناطہ توڑ لیا
ایک وہ دن جب پیڑ کی شاخیں بوجھ ہمارا سہتی تھیں
ایک یہ دن جب ساری سڑکیں روٹھی روٹھی لگتی ہیں
ایک وہ دن جب آؤ کھیلیں ساری گلیاں کہتی تھیں
ایک یہ دن جب جاگی راتیں دیواروں کو تکتی ہیں
ایک وہ دن جب شاموں کی بھی پلکیں بوجھل رہتی تھیں
ایک یہ دن جب ذہن میں ساری عیاری کی باتیں ہیں
ایک وہ دن جب دل میں بھولی بھالی باتیں رہتی تھیں
ایک یہ دن جب لاکھوں غم اور کال پڑا ہے آنسو کا
ایک وہ دن جب ایک ذرا سی بات پہ ندیاں بہتی تھیں
ایک یہ گھر جس گھر میں میرا ساز و ساماں رہتا ہے
ایک وہ گھر جس گھر میں میری بوڑھی نانی رہتی تھیں
اسلم






