امید بھی بر آئے گی گلشن بھی کِھلے گا
لا تقنطو سے ظرف ہی جب اپنا بڑھے گا
مشکل میں کہے جو بھی کہ اللہ ہے کافی
وہ تائِید غَیبی سے نہ محروم رہے گا
قسمت میں لکھا ہے جو وہ مل کر ہی رہے گا
جس دانے پر ہو مُہْر تو بالکل وہ ملے گا
لاٹھی میں خدا کی تو نہ آواز ہی ہوتی
اَرْبابِ سِتَم کا تو نشاں قَطْعِی مٹے گا
کیسی ہے یہ غفلت کہ نہ کچھ ہوش رہا ہے
کب آخری ہو سانس پتہ کچھ نہ چلے گا
ہر ایک کو دنیا میں ہے کانٹوں سے گزرنا
جو نیک بنے گا تو وہ ہی عیش کرے گا
دنیا میں اثر کتنے جتن کوئی بھی کر لے
نہ تو یہ چراغ یقیں پھونکوں سے بجھے گا