سال تو ہر سال بدلے گا
دیکھنا تو یہ ہے کہ کیا
رنگ بدلے گا روپ بدلے گا
چال بدلے گی ڈھال بدلے گا
ہم وہی تم وہی
قصے وہی وہ ہی کہانی
ڈھارس نئی امنگ تو نئی ہے
شاید اب کے حال بدلے گا
پھر سوچتی ہوں
تم وہی میں وہی تو
تو پھر کس طرح
یہ سال بدلے گا
وہی ملا وہی پنڈت
شور وہی ،وہی شرابہ
خانہ وہی، وہی خرابہ
کیوں کر حال بدلے گا
لٹنےوالے وہی لٹیرےوہی
حکومت وہی وڈیرے وہی
گو بدل گیا حکمراں
حال عوام کا بدلے گا