امید ہی پہ قائم رہنا ہے آدمی کا
Poet: عبدالحفیظ اثر By: عبدالحفیظ اثر, Mumbai, Indiaامید ہی پہ قائم رہنا ہے آدمی کا
 مایوس ہو کے جینا شیوہ نہیں جری کا
 
 دیکھو جہاں میں ہرسو دستور ہے یہ جاری
 ہر ظلمتوں کے پیچھے آنا ہے روشنی کا
 
 ہوگی ہی آزمائش ہر ایک کی جہاں میں
 نہ ہو سکے گا یاروں اس سے مفر کسی کا
 
 کرتوت پہ نظر ہو شکوہ عبث ہے کرنا
 دکھڑا ہی کیوں سنائیں اپنی ہی بے بسی کا
 
 اعمال ہوں گے جیسے تب فیصلے بھی ویسے
 احساس ہو ہی جائے اپنی ہی بے حسی کا
 
 ہر حال میں نظر ہو اس کی ہی مصلحت پر
 جو ہو گا وہ ہی بہتر شکوہ نہ ہو قوی کا
 
 قربان کیوں نہ ہوئیں اپنے کریم رب پر
 جس کے ہی دم سے جاری ہر کام زندگی کا
 
 تخلیق کا تھا مقصد ہو بندگی اسی کی
 اس کو نہ بھول جائیں فرمان ہے اسی کا
 
 چلتے رہیں گے تب تو پا جائیں گے ہی منزل
 ہمت سے کام لیناہو طرز ہم سبھی کا
 
 گھیریں کبھی حوادث دشمن بھی ہو زمانہ
 ہو چشم یار جس پر کیوں ڈر ہو نردئی کا
 
 جو اثر کی ہی مانو ہوجاؤ تم اسی کے
 تم کو بنا دے وہ ہی سردار اس دھرتی کا
ہمیں دَردِ دِل کی سزا تو دے، مگر اپنے لَب کبھی کہہ نہ دے۔
یہ چراغِ اَشک ہے دوستو، اِسے شوق سے نہ بُجھا دینا،
یہی ایک ہمدمِ بے وفا، ہمیں بے خبر کبھی کہہ نہ دے۔
مجھے زَخم دے، مجھے رَنج دے، یہ گلہ نہیں مرے چارہ گر،
مگر اپنے فیض کی ایک گھڑی مرا مُستقل کبھی کہہ نہ دے۔
مرے عَزم میں ہے وہ اِستقامت کہ شرر بھی اپنا اَثر نہ دے،
مجھے ڈر فقط ہے نسیم سے کہ وہ خاکِ چمن کبھی کہہ نہ دے۔
وہ جو بیٹھے ہیں لبِ جام پر، وہ جو مَست ہیں مرے حال پر،
انہی بزم والوں سے ڈر ہے مظہرؔ کہ وہ میرا نشاں کبھی کہہ نہ دے۔
مجھے توڑنے کی ہوس نہ ہو، مجھے آزمانے کی ضِد نہ ہو،
مجھے قرب دَشت کا شوق ہے، کوئی کارواں کبھی کہہ نہ دے۔
یہ جو صَبر ہے یہ وَقار ہے، یہ وَقار میرا نہ لُوٹ لینا،
مجھے زَخم دے کے زمانہ پھر مجھے بے اَماں کبھی کہہ نہ دے۔
مرے حوصلے کی ہے اِنتہا کہ زمانہ جُھک کے سَلام دے،
مگر اے نگاہِ کرم سنَبھل، مجھے سَرکشی کبھی کہہ نہ دے۔
جو چراغ ہوں مرے آستاں، جو اُجالہ ہو مرے نام کا،
کسی بَدزبان کی سازشیں اُسے ناگہاں کبھی کہہ نہ دے۔
یہی عَرض مظہرؔ کی ہے فقط کہ وَفا کی آنچ سَلامت ہو،
کوئی دِلرُبا مرے شہر میں مجھے بے وَفا کبھی کہہ نہ دے۔
دل کی خوشی چھن گئی اور آنکھوں میں خاری بن گئی ہے۔
یادوں کے طوفاں چلے اور نیندیں بھی ساری بن گئی ہے،
غم کی وہ زنجیر جس کو توڑی تھی، بھاری بن گئی ہے۔
جس کو سمجھتے تھے راحتوں کی سواری بن گئی ہے،
زندگی سچ کہہ رہی، محض ایک مجبوری بن گئی ہے۔
ہر دن نئی اِک کسک دل میں بیداری بن گئی ہے،
سانسوں کی ڈوری بھی اب تو اِک مجبوری بن گئی ہے۔
خوابوں کا عالم بھی اب محض بیقراری بن گئی ہے،
چاہت تھی جو روشنی، اب تو تاریکی بن گئی ہے۔
کل جو تھا دلکش بہت، آج وہ بیزاری بن گئی ہے،
رنگوں کی دنیا بھی مظہرؔ سنساری بن گئی ہے۔
لمحے جو تھے خوشنما، اب تو عیاری بن گئی ہے،
حالات کی موج ہر پل اِک دشواری بن گئی ہے۔
یادوں کا طوفان اب دل پہ سرکاری بن گئی ہے،
پہلے جو راحت تھی وہ زخمِ کاری بن گئی ہے۔
مظہرؔ جو کل تک دل میں تھی ایک چنگاری بن گئی ہے،
اب تو محبت ہر سمت کی بازار داری بن گئی ہے۔
دل کو تیری نظر لُٹا دیں گے
جس کو چاہا تھا اپنی دنیا میں
ہم وہی درد اب لگا دیں گے
خود سُنے گا زمانہ قصّہ اپنا
غم کی محفل میں یہ سُنا دیں گے
خاک ہونے کا کب گِلہ ہم کو
اپنے ارمان سب جلا دیں گے
وقت کی گرد میں چھپا ہر زخم
پھر کسی دن تمہیں چُبھا دیں گے
زندگی کا ہر اِک فسانہ ہم
دھوپ میں اپنے نام مِٹا دیں گے
میرے مظہرؔ نہ پوچھ دردِ دل
جو کمایا ہے سب اُڑا دیں گے







 
  
  
  
  
  
  
  
  
  
  
 