ان سے شکوہ کیاکروںان سے شکایت کیاکروں
وہ خود ہی منصنف ہیںاپنےمیں عداوت کیاکرون
اپنی ہستی خاک کرکےہر خوشی تو سونپ دی
اب بتاؤاس سے بڑھ کر میں محبت کیا کروں
خواب میری آنکھ سے جو ٹوٹ کر گرتے رہے
صبح کی پہلی کرن سے میں بغاوت کیا کروں
میں نے دامن میں سمیٹی ہیںبڑی رسوائیاں
آپ ہی کہیے کہ کس پر اور عنا یت کیا کروں
ہم چلے جائیںگےاک دن اس جہاں کی بزم سے
خود سے جو انجان ہیں ان سے وضاحت کیاکروں
اشک میرے لفظ کی صورت غزل لکھتے رہے
کاغذوں پہ ڈھل گئ میری ریاضت کیاکروں
سنگ لے کے پھر رہے ہیں اپنے ہم یادیں کئ
بڑھ رہی ہے روز ہی، اس دل کی حاجت کیاکروں
ہاتھ چھوٹا،ساتھ جھوٹا کیا سبب حالات تھے
صحن میں ٹھہری رہی میرے جو غربت کیاکروں
راہ کے پتھر بھی ہم سے اچھے ہی ٹھہرے غزل
ٹھوکریں بھی نہ رہیں اپنی جو قسمت کیا کروں