ان کو عہد شباب میں دیکھا
Poet: Abdul Hamid Adam By: Habib, khi
ان کو عہد شباب میں دیکھا
چاندنی کو شراب میں دیکھا
آنکھ کا اعتبار کیا کرتے
جو بھی دیکھا وہ خواب میں دیکھا
داغ سا ماہتاب میں پایا
زخم سا آفتاب میں دیکھا
جام لا کر قریب آنکھوں کے
آپ نے کچھ شراب میں دیکھا
کس نے چھیڑا تھا ساز مستی کو؟
ایک شعلہ رباب میں دیکھا
لوگ کچھ مطمئن بھی تھے پھر بھی
جس کو دیکھا عذاب میں دیکھا
ہجر کی رات سو گئے تھے عدمؔ
صبح محشر کو خواب میں دیکھا
More Abdul Hamid Adam Poetry
دروغ کے امتحاں کدے میں سدا یہی کاروبار ہوگا دروغ کے امتحاں کدے میں سدا یہی کاروبار ہوگا
جو بڑھ کے تائید حق کرے گا وہی سزاوار دار ہوگا
بلا غرض سادہ سادہ باتوں سے ڈال دیں رسم دوستی کی
جو سلسلہ اس طرح چلے گا وہ لازماً پائیدار ہوگا
چلو محبت کی بے خودی کے حسین خلوت کدے میں بیٹھیں
عجیب مصروفیت رہے گی نہ غیر ہوگا نہ یار ہوگا
ترے گلستاں کی آبرو ہے مہک تری انفرادیت کی
تو کسمپرسی سے بجھ بھی جائے تو غیرت نو بہار ہوگا
جہاں نہ تو ہو نہ کوئی ہمدرد ہو نہ کوئی شریف دشمن
میں سوچتا ہوں مجھے وہ ماحول کس طرح سازگار ہوگا
بہشت میں بھی جناب زاہد تمہیں نہ ترجیح مل سکے گی
وہاں بھی خوش ذوق عاصیوں کا تپاک سے انتظار ہوگا
عدمؔ کی شب خیزیوں کے احوال یوں سناتے ہیں اس کے محرم
کہ سننے والے یہ مان جائیں کوئی تہجد گزار ہوگا
جو بڑھ کے تائید حق کرے گا وہی سزاوار دار ہوگا
بلا غرض سادہ سادہ باتوں سے ڈال دیں رسم دوستی کی
جو سلسلہ اس طرح چلے گا وہ لازماً پائیدار ہوگا
چلو محبت کی بے خودی کے حسین خلوت کدے میں بیٹھیں
عجیب مصروفیت رہے گی نہ غیر ہوگا نہ یار ہوگا
ترے گلستاں کی آبرو ہے مہک تری انفرادیت کی
تو کسمپرسی سے بجھ بھی جائے تو غیرت نو بہار ہوگا
جہاں نہ تو ہو نہ کوئی ہمدرد ہو نہ کوئی شریف دشمن
میں سوچتا ہوں مجھے وہ ماحول کس طرح سازگار ہوگا
بہشت میں بھی جناب زاہد تمہیں نہ ترجیح مل سکے گی
وہاں بھی خوش ذوق عاصیوں کا تپاک سے انتظار ہوگا
عدمؔ کی شب خیزیوں کے احوال یوں سناتے ہیں اس کے محرم
کہ سننے والے یہ مان جائیں کوئی تہجد گزار ہوگا
ساجد ہمید
خالی ہے ابھی جام میں کچھ سوچ رہا ہوں خالی ہے ابھی جام میں کچھ سوچ رہا ہوں
اے گردش ایام میں کچھ سوچ رہا ہوں
ساقی تجھے اک تھوڑی سی تکلیف تو ہوگی
ساغر کو ذرا تھام میں کچھ سوچ رہا ہوں
پہلے بڑی رغبت تھی ترے نام سے مجھ کو
اب سن کے ترا نام میں کچھ سوچ رہا ہوں
ادراک ابھی پورا تعاون نہیں کرتا
دے بادۂ گلفام میں کچھ سوچ رہا ہوں
حل کچھ تو نکل آئے گا حالات کی ضد کا
اے کثرت آلام میں کچھ سوچ رہا ہوں
پھر آج عدمؔ شام سے غمگیں ہے طبیعت
پھر آج سر شام میں کچھ سوچ رہا ہوں
اے گردش ایام میں کچھ سوچ رہا ہوں
ساقی تجھے اک تھوڑی سی تکلیف تو ہوگی
ساغر کو ذرا تھام میں کچھ سوچ رہا ہوں
پہلے بڑی رغبت تھی ترے نام سے مجھ کو
اب سن کے ترا نام میں کچھ سوچ رہا ہوں
ادراک ابھی پورا تعاون نہیں کرتا
دے بادۂ گلفام میں کچھ سوچ رہا ہوں
حل کچھ تو نکل آئے گا حالات کی ضد کا
اے کثرت آلام میں کچھ سوچ رہا ہوں
پھر آج عدمؔ شام سے غمگیں ہے طبیعت
پھر آج سر شام میں کچھ سوچ رہا ہوں
umer
اے ساقئ مہ وش غم دوراں نہیں اٹھتا اے ساقئ مہ وش غم دوراں نہیں اٹھتا
درویش کے حجرے سے یہ مہماں نہیں اٹھتا
کہتے تھے کہ ہے بار دو عالم بھی کوئی چیز
دیکھا ہے تو اب بار گریباں نہیں اٹھتا
کیا میرے سفینے ہی کی دریا کو کھٹک تھی
کیا بات ہے اب کیوں کوئی طوفاں نہیں اٹھتا
کس نقش قدم پر ہے جھکا روز ازل سے
کس وہم میں سجدے سے بیاباں نہیں اٹھتا
بے ہمت مردانہ مسافت نہیں کٹتی
بے عزم مصمم قدم آساں نہیں اٹھتا
یوں اٹھتی ہیں انگڑائی کو وہ مرمریں بانہیں
جیسے کہ عدمؔ تخت سلیماں نہیں اٹھتا
درویش کے حجرے سے یہ مہماں نہیں اٹھتا
کہتے تھے کہ ہے بار دو عالم بھی کوئی چیز
دیکھا ہے تو اب بار گریباں نہیں اٹھتا
کیا میرے سفینے ہی کی دریا کو کھٹک تھی
کیا بات ہے اب کیوں کوئی طوفاں نہیں اٹھتا
کس نقش قدم پر ہے جھکا روز ازل سے
کس وہم میں سجدے سے بیاباں نہیں اٹھتا
بے ہمت مردانہ مسافت نہیں کٹتی
بے عزم مصمم قدم آساں نہیں اٹھتا
یوں اٹھتی ہیں انگڑائی کو وہ مرمریں بانہیں
جیسے کہ عدمؔ تخت سلیماں نہیں اٹھتا
basit
آنکھوں سے تری زلف کا سایہ نہیں جاتا آنکھوں سے تری زلف کا سایہ نہیں جاتا
آرام جو دیکھا ہے بھلایا نہیں جاتا
اللہ رے نادان جوانی کی امنگیں!
جیسے کوئی بازار سجایا نہیں جاتا
آنکھوں سے پلاتے رہو ساغر میں نہ ڈالو
اب ہم سے کوئی جام اٹھایا نہیں جاتا
بولے کوئی ہنس کر تو چھڑک دیتے ہیں جاں بھی
لیکن کوئی روٹھے تو منایا نہیں جاتا
جس تار کو چھیڑیں وہی فریاد بہ لب ہے
اب ہم سے عدمؔ ساز بجایا نہیں جاتا
آرام جو دیکھا ہے بھلایا نہیں جاتا
اللہ رے نادان جوانی کی امنگیں!
جیسے کوئی بازار سجایا نہیں جاتا
آنکھوں سے پلاتے رہو ساغر میں نہ ڈالو
اب ہم سے کوئی جام اٹھایا نہیں جاتا
بولے کوئی ہنس کر تو چھڑک دیتے ہیں جاں بھی
لیکن کوئی روٹھے تو منایا نہیں جاتا
جس تار کو چھیڑیں وہی فریاد بہ لب ہے
اب ہم سے عدمؔ ساز بجایا نہیں جاتا
zeeshan
ان کو عہد شباب میں دیکھا ان کو عہد شباب میں دیکھا
چاندنی کو شراب میں دیکھا
آنکھ کا اعتبار کیا کرتے
جو بھی دیکھا وہ خواب میں دیکھا
داغ سا ماہتاب میں پایا
زخم سا آفتاب میں دیکھا
جام لا کر قریب آنکھوں کے
آپ نے کچھ شراب میں دیکھا
کس نے چھیڑا تھا ساز مستی کو؟
ایک شعلہ رباب میں دیکھا
لوگ کچھ مطمئن بھی تھے پھر بھی
جس کو دیکھا عذاب میں دیکھا
ہجر کی رات سو گئے تھے عدمؔ
صبح محشر کو خواب میں دیکھا
چاندنی کو شراب میں دیکھا
آنکھ کا اعتبار کیا کرتے
جو بھی دیکھا وہ خواب میں دیکھا
داغ سا ماہتاب میں پایا
زخم سا آفتاب میں دیکھا
جام لا کر قریب آنکھوں کے
آپ نے کچھ شراب میں دیکھا
کس نے چھیڑا تھا ساز مستی کو؟
ایک شعلہ رباب میں دیکھا
لوگ کچھ مطمئن بھی تھے پھر بھی
جس کو دیکھا عذاب میں دیکھا
ہجر کی رات سو گئے تھے عدمؔ
صبح محشر کو خواب میں دیکھا
Habib
اگرچہ روز ازل بھی یہی اندھیرا تھا اگرچہ روز ازل بھی یہی اندھیرا تھا
تری جبیں سے نکلتا ہوا سویرا تھا
پہنچ سکا نہ میں بر وقت اپنی منزل پر
کہ راستے میں مجھے رہبروں نے گھیرا تھا
تری نگاہ نے تھوڑی سی روشنی کر دی
وگرنہ عرصۂ کونین میں اندھیرا تھا
یہ کائنات اور اتنی شراب آلودہ
کسی نے اپنا خمار نظر بکھیرا تھا
ستارے کرتے ہیں اب اس گلی کے گرد طواف
جہاں عدمؔ مرے محبوب کا بسیرا تھا
تری جبیں سے نکلتا ہوا سویرا تھا
پہنچ سکا نہ میں بر وقت اپنی منزل پر
کہ راستے میں مجھے رہبروں نے گھیرا تھا
تری نگاہ نے تھوڑی سی روشنی کر دی
وگرنہ عرصۂ کونین میں اندھیرا تھا
یہ کائنات اور اتنی شراب آلودہ
کسی نے اپنا خمار نظر بکھیرا تھا
ستارے کرتے ہیں اب اس گلی کے گرد طواف
جہاں عدمؔ مرے محبوب کا بسیرا تھا
Yaqoob






