ان کی شان میں لکھوں تو الفاظ کہاں
اک تحریر میں آیں، سب انداز کہاں
جس شب عرش سے اونچے ان کے قدم گئے
راز فلک کے اس شب سے ہیں راز کہاں
آگ میں جھونکے جاتے تھے عشاق، مگر
الفت_نبوی سے وہ ٹھہرے باز کہاں
آج ازاں پنجگانہ ہوتی ہے، لیکن
حبشی جیسا سوز کہاں، انداز کہاں
ان کی مثل تو ان کا سایہ بھی نہ ہوا
ان کے جیسا جگ میں ہے ممتاز کہاں
ان کے ثنا خوانوں میں میرا نام آے
مجھ کو حاصل یہ شاہین اعجاز کہاں