ان کی قسمت سنوارتا ہوں میں
ایک دو لوگوں کا خدا ہوں میں
تیری یادوں کے پر کتر کے ہی
دل کے پنجرے کو کھولتا ہوں میں
فیصلے دل سے لیتا تھا سارے
ذہن کے شہر میں نیا ہوں میں
خامشی تھا زبان والوں کی
بے زبانوں کی اب سدا ہوں میں
کس نے آواز دی ہے پیچھے سے
کس کی خاطر رکا ہوا ہوں میں
غالباً سوچتا ہوں کافی کم
کچھ زیادہ ہی سوچتا ہوں میں
خود سے آگے نکل کے اے راہی
خود کو آواز دے رہا ہوں میں
بارہا کرتا ہوں حدیں میں پار
پھر کہیں پاؤں دیکھتا ہوں میں
جانے کتنوں کی ہو تمہیں منزل
جانے کتنوں کا راستا ہوں میں