ہماری سادگی اور ان کی ہوشیاری نہیں جاتی
حسینوں سے ہم اہل دل کی دلداری نہیں جاتی
بہت سے لوگ گھائل ہو گے مجھ سے جوانی میں
مگر مکھی بھی ہم سے ایک اب ماری نہیں جاتی
جب سے دیکھا ہے وہ گلا ب سا حسیں چھرہ
اب ہماری آنکھوں سے موتیے کی بیماری نہیں جاتی
شب فرقت میں روتے ہیں چھپا کر چہرہ بستر میں
بالاخر بیت جب تک رات ساری نہیں جاتی
سنا کر اپنی غزلیں ٹی وی پر خوش تو ہوں لیکن
ہاں میرے فون کے بل کی بمباری نہیں جاتی
کسی کی ہاں میں ہاں ملاتا نہیں کبھی اصغر
کے مجھ سے دور حاضر میں رواداری نہیں جاتی