ان کے جاتے ہی یہ وحشت کا اثر دیکھا کئے
سوئے در دیکھا تو پہروں سوئے در دیکھا کئے
دل کو وہ کیا دیکھتے سوز جگر دیکھا کئے
لگ رہی تھی آگ جس گھر میں وہ گھر دیکھا کئے
ان کی محفل میں انہیں سب رات بھر دیکھا کئے
ایک ہم ہی تھے کہ اک اک کی نظر دیکھا کئے
تم سرہانے سے گھڑی بھر کے لئے منہ پھیر لو
دم نہ نکلے گا مری صورت اگر دیکھا کئے
میں کچھ اس حالت سے ان کے سامنے پہنچا کہ وہ
گو مری صورت سے نفرت تھی مگر دیکھا کئے
فائدہ کیا ایسی شرکت سے عدو کی بزم میں
تم ادھر دیکھا کئے اور ہم ادھر دیکھا کئے
شام سے یہ تھی ترے بیمار کی حالت کہ لوگ
رات بھر اٹھ اٹھ کے آثار سحر دیکھا کئے
بس ہی کیا تھا بے زباں کہتے بھی کیا صیاد سے
یاس کی نظروں سے مڑ کر اپنا گھر دیکھا کئے
موت آ کر سامنے سے لے گئی بیمار کو
دیکھیے چارہ گروں کو چارہ گر دیکھا کئے
رات بھر تڑپا کیا ہے درد فرقت سے قمرؔ
پوچھ لو تاروں سے تارے رات بھر دیکھا کئے