اندھیرے دل میں کسی نے آ کر چراغِ الفت جلا دیا
راہِ وفا سے جو بے خبر تھے تو راہ اٌن کو دِکھا دیا
کبھی کسی کو تو جامِ الفت پلا کے بے خود ہی کر دیا
کہ ماہی جیسے بے آب ہو بس تڑپنا ویسے سکھا دیا
کہاں سے ایثار کا نمونہ ملے جو اسلاف نے دیا
کہ خود تو بھوکے رہے مگر نہ کسی کو بھوکا سٌلا دیا
وہ کیسی ہمدردی تھی کہ اس کی نظیر نہ مل سکے کہیں
کہ پیاسے دم توڑ ہی دیئے پر سبق انوکھا پڑھا دیا
کبھی لرز کر کوئی یہ کہتا کہ دیکھو وہ دیو آمدن
یقیں بھی پختہ ہی ایسا کہ دریا میں گھوڑوں کو دوڑا دیا
کبھی کسی پر نہ ظلم کوئی سبھی پہ یکساں نظر رہی
ملا کوئی راہ سے ہی بھٹکا تو راہ سیدھی بتا دیا
عمل سے کوسوں تو دور ہیں ہم نہ فکرِ عقبیٰ بھی ہو کوئی
یہ رنج ایسا کہ اثر کو بھی اسی نے بالکل گٌھلا دیا