انشاؔ جی اٹھو اب کوچ کرو اس شہر میں جی کو لگانا کیا
Poet: Ibn e Insha By: Wajahat, khi
انشاؔ جی اٹھو اب کوچ کرو اس شہر میں جی کو لگانا کیا
وحشی کو سکوں سے کیا مطلب جوگی کا نگر میں ٹھکانا کیا
اس دل کے دریدہ دامن کو دیکھو تو سہی سوچو تو سہی
جس جھولی میں سو چھید ہوئے اس جھولی کا پھیلانا کیا
شب بیتی چاند بھی ڈوب چلا زنجیر پڑی دروازے میں
کیوں دیر گئے گھر آئے ہو سجنی سے کرو گے بہانا کیا
پھر ہجر کی لمبی رات میاں سنجوگ کی تو یہی ایک گھڑی
جو دل میں ہے لب پر آنے دو شرمانا کیا گھبرانا کیا
اس روز جو ان کو دیکھا ہے اب خواب کا عالم لگتا ہے
اس روز جو ان سے بات ہوئی وہ بات بھی تھی افسانا کیا
اس حسن کے سچے موتی کو ہم دیکھ سکیں پر چھو نہ سکیں
جسے دیکھ سکیں پر چھو نہ سکیں وہ دولت کیا وہ خزانا کیا
اس کو بھی جلا دکھتے ہوئے من اک شعلہ لال بھبوکا بن
یوں آنسو بن بہہ جانا کیا یوں ماٹی میں مل جانا کیا
جب شہر کے لوگ نہ رستا دیں کیوں بن میں نہ جا بسرام کرے
دیوانوں کی سی نہ بات کرے تو اور کرے دیوانا کیا
یا ہمیں کو خبر نہیں ہوتی
ہم نے سب دکھ جہاں کے دیکھے ہیں
بیکلی اس قدر نہیں ہوتی
نالہ یوں نارسا نہیں رہتا
آہ یوں بے اثر نہیں ہوتی
چاند ہے کہکشاں ہے تارے ہیں
کوئی شے نامہ بر نہیں ہوتی
ایک جاں سوز و نامراد خلش
اس طرف ہے ادھر نہیں ہوتی
دوستو عشق ہے خطا لیکن
کیا خطا درگزر نہیں ہوتی
رات آ کر گزر بھی جاتی ہے
اک ہماری سحر نہیں ہوتی
بے قراری سہی نہیں جاتی
زندگی مختصر نہیں ہوتی
ایک دن دیکھنے کو آ جاتے
یہ ہوس عمر بھر نہیں ہوتی
حسن سب کو خدا نہیں دیتا
ہر کسی کی نظر نہیں ہوتی
دل پیالہ نہیں گدائی کا
عاشقی در بہ در نہیں ہوتی
اس بات سے ہم کو کیا مطلب یہ کیسے ہو یہ کیوں کر ہو
اک بھیک کے دونوں کاسے ہیں اک پیاس کے دونو پیاسے ہیں
ہم کھیتی ہیں تم بادل ہو ہم ندیاں ہیں تم ساگر ہو
یہ دل ہے کہ جلتے سینے میں اک درد کا پھوڑا الہڑ سا
نا گپت رہے نا پھوٹ بہے کوئی مرہم ہو کوئی نشتر ہو
ہم سانجھ سمے کی چھایا ہیں تم چڑھتی رات کے چندرماں
ہم جاتے ہیں تم آتے ہو پھر میل کی صورت کیوں کر ہو
اب حسن کا رتبہ عالی ہے اب حسن سے صحرا خالی ہے
چل بستی میں بنجارہ بن چل نگری میں سوداگر ہو
جس چیز سے تجھ کو نسبت ہے جس چیز کی تجھ کو چاہت ہے
وہ سونا ہے وہ ہیرا ہے وہ ماٹی ہو یا کنکر ہو
اب انشاؔ جی کو بلانا کیا اب پیار کے دیپ جلانا کیا
جب دھوپ اور چھایا ایک سے ہوں جب دن اور رات برابر ہو
وہ راتیں چاند کے ساتھ گئیں وہ باتیں چاند کے ساتھ گئیں
اب سکھ کے سپنے کیا دیکھیں جب دکھ کا سورج سر پر ہو
وحشی کو سکوں سے کیا مطلب جوگی کا نگر میں ٹھکانا کیا
اس دل کے دریدہ دامن کو دیکھو تو سہی سوچو تو سہی
جس جھولی میں سو چھید ہوئے اس جھولی کا پھیلانا کیا
شب بیتی چاند بھی ڈوب چلا زنجیر پڑی دروازے میں
کیوں دیر گئے گھر آئے ہو سجنی سے کرو گے بہانا کیا
پھر ہجر کی لمبی رات میاں سنجوگ کی تو یہی ایک گھڑی
جو دل میں ہے لب پر آنے دو شرمانا کیا گھبرانا کیا
اس روز جو ان کو دیکھا ہے اب خواب کا عالم لگتا ہے
اس روز جو ان سے بات ہوئی وہ بات بھی تھی افسانا کیا
اس حسن کے سچے موتی کو ہم دیکھ سکیں پر چھو نہ سکیں
جسے دیکھ سکیں پر چھو نہ سکیں وہ دولت کیا وہ خزانا کیا
اس کو بھی جلا دکھتے ہوئے من اک شعلہ لال بھبوکا بن
یوں آنسو بن بہہ جانا کیا یوں ماٹی میں مل جانا کیا
جب شہر کے لوگ نہ رستا دیں کیوں بن میں نہ جا بسرام کرے
دیوانوں کی سی نہ بات کرے تو اور کرے دیوانا کیا






