انصاف سے محروم نہ کوئی بھی رہے گا
جیسا جو کرےگا تو وہ ویسا ہی بھرے گا
کاغذ کی جو ہے ناؤ یوں کب تک وہ چلے گی
اربابٍ ستم کا تو نشاں پل میں مٹے گا
ہر شب کے گزرنے پر سحر ہو کر رہے گی
جو دکھ ہی ملا ہے تو کبھی سکھ بھی ملے گا
شیطان کے ہر مکر سے ہے خود کو بچانا
جو نیک بنے گا تو وہ ہی عیش کرے گا
ہر شاخ پہ ہے الو تو ہو فکر چمن کی
غفلت جو رہے گی تو چمن بھی نہ بچے گا
یہ دھوپ کبھی چھاؤں یہی اثر ہے جیون
پختہ جو یقیں ہو تو چمن کیوں نہ کِھلے گا