دست جفا پرست سے شمشیر چھین لو
جھوٹی جو اس کے پاس ہے توقیر چھین لو
مایوسیاں خدا کو بھی آتی نہیں پسند
خوابوں سے اپنے حصے کی تعبیر چھین لو
جس کی کرن نہ پہنچے گلستاں کی شاخ تک
ہاں ایسے آفتاب کی تنویر چھین لو
جس میں کسی غریب کی مشکل کا حل نہ ہو
ہونٹوں ایسے لذت تقریر چھین لو
جس جس کے پاس زر کے ذخیرے ہیں دوستوں
کرنے کو گلستاں کی تعمیر چھین لو
جس کھیت سے ہاری خوشہ نہ ہو نصیب
ہر ایسے کھلیان کی جوان و پیر چھین لو
پہنے نہ کوئی اب بے جرم بیڑیاں
ظالم کے ہاتھ سے زنجیر چھین لو
جس کا نشانہ بنے ناصر برابر کوئی غریب
اب شکاریوں کے ہاتھ سے وہ تیر چھین لو