Add Poetry

انقلاب وقت

Poet: Ishraq Jamal Ashar Chishti By: Ishraq Jamal Ashar Chishti, DUBAI-U.A.E

لوٹا گیا گلشن میں بہاروں کو سرِ عام
مارا گیا شب خون اجالوں پہ سرِ عام
روندا گیا معصوم اداؤں کو سرِ عام
کھنچا گیا بہنوں کی رداؤں کو سرِعام
داغا گیا جسموں کو سلاخوں سے سرعام
مارا گیا مفروضی خطاؤں پہ سرعام
پکڑا گیا نا کردہ گناہوں پہ سرعام

ہر گام پہ خوشیاں تھیں گلابوں کی مہک تھی
چاہت کے اجالوں میں محبت کی دمک تھی
کلیوں میں تبسم لیے کومل سی لچک تھی
غنچوں میں شرارت بھری معصوم چٹک تھی
تتلی کو لبھائے وہ شگوفوں کی دھنک تھی
جگنو کی اندھیروں میں وہ اتراتی چمک تھی
فرحت بھرے جھونکوں میں سحر خیز خنک تھی

رنگوں سے نکھرتا ہوا روشن یہ جہاں تھا
الفت تھی فضاؤں میں محبت کا سماں تھا
رونق تھی، سکوں تھا گلی کوچوں میں اماں تھا
خوشحالی کا اک راز ہوا سب پہ عیاں تھا
حاسد کو نہ بھایا کہ بخض دل میں نہاں تھا
وہ چال چلی شہر میں بارود دھواں تھا

سڑکوں پہ تکبر زدہ بوٹوں کی دھمک تھی
بھڑکے ہوئے شعلوں میں تعصب کی لپک تھی
روتے ہوئے بچوں میں یتیمی کی کسک تھی
زنداں میں مچلتی ہوئی بیڑی کی کھنک تھی
حسرت زدہ چہروں پہ یاں ماتم کی بلک تھی
فرعون کے لہجے میں خدائی کی جھلک تھی
تاراج کرئے شہر کو یہ اسکو سنک تھی
جھوٹے کی زباں پر جو صداقت کی بڑک تھی
لے جائے قبر تک وہ بچی ایک سڑک تھی
سب کچھ تھا مگر دل میں بھی قائد کی دھڑک تھی

فرعون کے قہر کے سجے دربار یہاں پر
گر کر بکے ظالم سر بازار یہاں پر
پیسوں سے خریدے گئے غدار یہاں پر
اپنے بھی پرائے ہوئے اغیار یہاں پر
چھوڑے گئے انسانوں پہ خونخوار یہاں پر
خاموش تماشائی تھے سب یار یہاں پر
رستے میں اٹھا دی گئی دیوار یہاں پر
جلتے رہے میرے در دیوار یہاں پر
ڈھائے گئے مجبور کے گھر بار یہاں پر
انصاف بھی ملنا ہوا دشوار یہاں پر
رونا بھی تھا تکلیف میں بیکار یہاں پر
متوالے نہ پھر بھی ہوئے بیزار یہاں پر
نظروں نے عجب دیکھے تھے شہکار یہاں پر
روشن تھے اندھیروں میں جو مینار یہاں پر
گرتے ہوئے دیکھی گئی سرکار یہاں پر

ذلت کے اندھیروں میں وہ غدار ہوئے گم
طوفاں کے تھپیڑوں سے وہ دربار گئے ڈوب
رستے کی وہ دیوار تھی جذبوں نے گرا دی
نفرت کے وہ سب تیر محبت سے گئے ٹوٹ
روندا تھا میرے شہر کو جس جس نے یہاں پر
اب انکے ٹھکانوں میں قیامت کی مچی لوٹ
کل تک جو فراعیں خدا بن کے جیئے تھے
وہ آج رہے ہیں کسی زنداں کے مزے لوٹ
قائد کی بدولت یہ سحر ہم کو ملی ہے
قائد کے عمل ہی سے ہوا سچ اسے الگ جھوٹ
ہونٹوں کے قفل توڑ دیئے فکر رساء نے
وردی کا نہ اب خوف نہ دہشت کا نشاں بوٹ
ظلمت نے جکڑ رکھا تھا جنکو یہاں اشہر
قائد کی فراست سے وہ مظلوم گئے چھوٹ
 

Rate it:
Views: 518
30 Apr, 2010
More Political Poetry
یہ وطن، یہ ہم ہر ذہن خستہ حال ہے یہ وطن
کہ تجھے ہم نے بنا دیا ہے تماشئہ سُخن
بھول گۓ سب وہ مقصد وہ عہدوفا
جس نے بنایا ہمیں ایک قوم، ایک صدا
یہ زمین جوایک کا نہیں، ہے سب کا مقام
پنجابی، بلوچ، سندھی، پٹھان، ایک ہی ہے ہمارا نام
پُتلی تماشا ہے اصل بازی گروں کا یہ نظام
چھین لیتے ہیں سب کچھ جو نہ جھکیں ان کے سلام
حکمران سے لے کر سب کا یہی حال
فکر ہے تو بس جاگیر کی، نہ کوئی قومی خیال
ہر قبیلے میں بٹی قوم، زبانوں میں الجھی سوچ
کہ ہر ایک کہتا ہے
یہ خطہ میرا ہے، جیسے باقی سب کچھ ہو دوچ
نہ کبھی ہم اک زبان ہوۓ، نہ دل سے دل، نہ اک جان
ہم نے خود ہی توڑا ہے انقلاب کا ہر امکان
ہر 14 اگست میں کیوں نہ کہے" ہم آزاد ہیں، زندہ باد ہیں"
جب خود ظلم کے عادی ہو، غلامی پہ راضی ہو؟
اگر صرف تین بنیادی حق بھی نہ دے-
تعلیم، رہائش، اور تحفظ، ہر ایک کو، حکومت
تو پھر کس بات کی صدارت؟ کس بات کی وزارت؟
نہ یہ تخت تیرا تھا، نہ یہ وطن تیرا جائیداد
پھر کیوں ہم پر تمہیں مسلط کیا گیا بن ارشاد؟
سب قصوروار ہے
نہ صرف حکومت، نہ صرف عوام، سب کا کردار ہے
ہاتھوں سے اجاڑا ہے یہ چمن-
نہ کوئی اور آیا، نہ کوئی دوشمن، ہم ہی ہے وہ ظالم بن
خدارا! بانٹو نہ خود کو قوموں میں، مذاہب میں، دشمن کی چال پر
مت بھولو، اسی اتحاد پر ہمیں ملی تھی آزادی شام و سحر کے دام پر
اگر نہ بدلے، ہر فرد، ہر ادارہ
تو رہ جاۓ گا صرف ایک خاکہ، ایک قصہ، ایک خسارہ
 
نگین
قد آور آئینے ہمارا نام مسلماں، ادائیں کافر ہیں
حرام خور یہاں سارے لوگ ساغِر ہیں
یہاں وزارتِ عظمیٰ نشست بکتی ہے
جو ظاہراً تو بہت خوشگوار دِکھتی ہے
یہاں پہ جسم بکے، دل بکے، ضمیر بکے
وکیل و منصف و انصاف کیا، وزیر بکے
یہ وہ نگر ہے جہاں باپ بیچے بچوں کو
کہ بھیک مانگتے دیکھا ہے کتنی ماؤں کو
جو گھر میں آئے وہ مہمان بکتے دیکھے ہیں
کہ چند ٹکّوں پہ ایمان بکتے دیکھے ہیں
یہ وہ نگر ہے جہاں پر دیانتیں مفقود
فقط ہے مال بنانا عوام کا مقصود
جو حکمران ہیں بے شرم ہیں، یہ بے حس ہیں
سو محتسب بھی انہیں کے شریکِ مجلس ہیں
ادارے جو تھے وہ برباد ہوتے جاتے ہیں
نہیں ہے پیروی، ہم جن کا دن مناتے ہیں
سہولتیں تو یہاں کچھ نہیں میسر ہیں
بلوں پہ بل ہیں، یہاں حال سب کے ابتر ہیں
نہیں ہے گیس نہ بجلی نہ آب ملتا ہے
کریں جو شور تو روکھا جواب ملتا ہے
گرانیوں کا یہ عالم کہ لوگ مرنے لگے
کہ گھاٹیوں میں سبھی موت کی اترنے لگے
ہر ایک چہرے پہ زردی مَلی ملے گی یہاں
کلی بہار کی لگتا نہیں کھلے گی یہاں
وہ دیکھ ملک میں افلاس سر اٹھائے ہوئے
کہ ابر ظلم کے ہر سمت دیکھ چھائے ہوئے
یہ لوگ بھوک سے مجبور خود کشی پر ہیں
کہ دنگ ایسے میں حاکم کی بے حسی پر ہیں
یہ ملک جیسے کہیں پر پڑا ہے لوٹ کا مال
کسی کو روک سکے کب کسی میں ایسی مجال
سو لوٹنے میں لگا ہے یہاں پہ ہر کوئی
یہاں سے سکھ تو لیا سب نے بھوک ہے بوئی
بڑے نے چھوٹے کو محکوم کر کے رکھا تھا
نتیجہ دیکھ لیا سب نے یہ تعاصب کا
ہمارے لہجوں میں تلخی کا ذمہ دار ہے کون؟
امیرِ شہر نہیں ہے تو داغدار ہے کون؟
گلی گلی میں جو بکھرے ہوئے یہ لاشے ہیں
غلیظ چہرے پہ حاکم کے ہی طمانچے ہیں
بھریں یہ جیب، رعایا کو صرف ٹھینگا ہے
نظام سارا یہ آنکھوں سے گویا بھینگا ہے
ہوئے جو بعد میں آزاد سب عروج پہ ہیں
یہاں پہ دوش ہیں، الزام ایک دوج پہ ہیں
کوئی بھی کام یہاں سود بن نہیں ہوتا
جو ہوتا قائدِ اعظم تو آبگیں ہوتا
عدالتوں میں جو انصاف بکتا آیا ہے
یہ کام قائدِ اعظم کے زیرِ سایہ ہے
معالجوں کی طرف دیکھتے ہیں، روتے ہیں
یہ رقمیں لے کے بھی نیّا فقط ڈبوتے ہیں
اسی طرح سے ہو استاد یا کہ سوداگر
سبھی کے سب ہیں یہ جلّاد سارے فتنہ گر
ہو مولوی کہ ہو رنگ ساز اور زلف تراش
کہ پانیوں پہ ابھر آئے جیسے کوئی لاش
اگر تو دودھ میں پانی ملایا جاتا ہے
دکان دار میں ایمان پایا جاتا ہے
وگرنہ زہر ہے بکتا بنامِ دودھ یہاں
کہ پی کے جسکو رہے گا کہیں نہ نام و نشاں
مٹھاس پھل میں بھریں لوگ کس سلیقے سے
کریں نہ ایسا تو یہ پھل ہیں پھیکے پھیکے سے
برادہ مرچ میں، پتی میں ڈالتے ہیں خون
بنا کے مال یہ جائیں گے جیسے دیرہ دون
یہ زلزلے کہ ہوں طوفان بے سبب تو نہیں
یہ سوچنا ہے کہ ناراض ہم سے ربّ تو نہیں
صحافیوں کی یہ فوجیں ہیں یا فسانہ نگار
یہ پتر کار یہ شاعر ادیب و شاہ سوار
کسی کو اپنے فرائض کا کچھ نہیں احساس
نہیں ہے چھوٹوں پہ شفقت، سفید ریش کا پاس
لگا ہے ہر کوئی اپنی دکاں بڑھانے میں
سپاہی فوج میں، پولیس اپنے تھانے میں
کرو گے کب تلک اس بات سے نظر پوشی
رہا نہ ملک تو ٹھہراؤ گے کسے دوشی
ابھی بھی وقت ہے خود اپنا احتساب کریں
کہ پورا ملک کی شادابیوں کا خواب کریں
رشیدؔ اپنا بھی کچھ احتساب ہے کہ نہیں؟
ذرا گناہ سے ہی اجتناب ہے کہ نہیں؟
رشید حسرت
Popular Poetries
View More Poetries
Famous Poets
View More Poets