اِس دل کی سیاہی کو سرکار مٹا دینا
انوارِ محبت سے پُر نور بنا دینا
پژمردہ طبیعت کو سرکار کھِلا دینا
دربارِ مقدس کا دیدار کرا دینا
دنیا کی محبت سے سرکار چھڑا دینا
بس اپنی عقیدت ہی اِس دل میں بسا دینا
طائف میں ہُوا کیا کیا ہو کیسے بیاں؟ لیکن
سرکار کا دیکھیں تو ایسوں کو دُعا دینا
لب پر مرے نعتیں ہوں ، نظروں میں مدینہ ہو
اس وقت مرے مولا! تُو مجھ کو قضا دینا
مَیں نعت کے سارے ہی آداب بجا لاؤں
حسّان کے صدقے میں مدحت وہ سکھا دینا
کہتا ہے مُشاہدؔ یہ نوریؔ کے وسیلے سے
’’ہر داغ مٹا دینا اور دل کی دوا دینا‘‘
٭