انٹرنیٹ کا دور ہے لوگ انٹرنیٹ پرباتیں کرنے لگے ہیں
نوجوان لڑکے لڑکیاں انٹرنیٹ پرملاقاتیں کرنے لگے ہیں
شرم و حیاءسرِعام نیلام ہے بے حیائی کا بس کام ہے
ملک کے شرفاءفکر مند ہیں اب اس سے ڈرنے لگے ہیں
جن کی ننگی تہذیب ہے اُن کے لیے کب یہ عجیب ہے
اب لوگوں پر اس کے گندے رنگ چڑھنے لگے ہیں
کچھ ڈھونڈیں پڑھائی کے بہانے کچھ سگائی کے بہانے
چسکوں کی یہ ریل چلی ہے مسافر اس پر چڑھنے لگے ہیں
عریانی یہاں بے حساب ہے اسلیے انٹرنیٹ کامیاب ہے
دیکھ کر اسکے نئے ڈھنگ غیرت مند اب کڑھنے لگے ہیں
کبھی بُری سمجھی جاتی تھی بے حیائی اب فیشن بن کرآئی
ماﺅں بہنوں کے کپڑے جسموں سے سے کڑنے لگے ہیں
دیکھ کر رنگ بھرنگی تصویریں بدل جاتی ہیں تقدیریں
جو ہمیشہ چلتے تھے سیدھی راہ پراب وہ اڑنے لگے ہیں
ہر ایک کا اب تو بُرا حال ہے اسے دیکھنے کو بے قرار ہے
برے اسکے اثرات ہیں بچوں کے ذہن بکھرنے لگے ہیں
کچھ لوگ جو ہوتے ہیں مجبورجن کی پہنچ سے ہے یہ دور
دیکھ کر یہ نئے رنگ ڈھنگ اندر ہی اندر سڑنے لگے ہیں
ریٹائیرمنٹ کا بڑا فائدہ ہے وقت بچتا بہت زیادہ ہے
فارغ بوڑھے ان راہوں پر اب چلنے لگے ہیں
اے طاہر تو ہے مجبوراس لیے ہے انٹر نیٹ سے دور
کس لیے تو جلتا ہے’ تجھے اب کیوں ہول’ پڑنے لگے ہیں