انکار کی راھوں پر، میں چَلتا چلا آیا
اِقرار کی بازی تو، میں ہَرتا چلا آیا
ترے دِیں کی دُنیا کو، میں کُچھ نہ سمجھ پایا
اِک وِردِ مسلسل ہی، میں کرتا چلا آیا
اعمال مِرے گرچہ، گو رَشکِ مَلَک نہ تھے
اِک نام ترے سے ہی، میں ڈرتا چلا آیا
جنت کی حُوروں سے، ھے مجھ کو اِباء لیکن
تیری چاھت میں، اُن پر، میں مَرتا چلا آیا
آئے تھے راھوں میں، گو خِشت و خار بہت
اِک جذبِ قلندر سے، میں بِہتا چلا آیا
نہ راہِ وَصَل پائی، تیری رِہ میں کہیں پر بھی
میرا عشقِ جنُوں تھا سِوا، میں اُڑتا چلا آیا