اور اب یہ کہتا ہوں یہ جرم تو روا رکھتا
Poet: Majeed Amjad By: mumtaz, khi
اور اب یہ کہتا ہوں یہ جرم تو روا رکھتا
میں عمر اپنے لیے بھی تو کچھ بچا رکھتا
خیال صبحوں کرن ساحلوں کی اوٹ سدا
میں موتیوں جڑی بنسی کی لے جگا رکھتا
جب آسماں پہ خداؤں کے لفظ ٹکراتے
میں اپنی سوچ کی بے حرف لو جلا رکھتا
ہوا کے سایوں میں ہجر اور ہجرتوں کے وہ خواب
میں اپنے دل میں وہ سب منزلیں سجا رکھتا
انہیں حدوں تک ابھرتی یہ لہر جس میں ہوں میں
اگر میں سب یہ سمندر بھی وقت کا رکھتا
پلٹ پڑا ہوں شعاعوں کے چیتھڑے اوڑھے
نشیب زینۂ ایام پر عصا رکھتا
یہ کون ہے جو مری زندگی میں آ آ کر
ہے مجھ میں کھوئے مرے جی کو ڈھونڈتا رکھتا
غموں کے سبز تبسم سے کنج مہکے ہیں
سمے کے سم کے ثمر ہیں میں اور کیا رکھتا
کسی خیال میں ہوں یا کسی خلا میں ہوں
کہاں ہوں کوئی جہاں تو مرا پتا رکھتا
جو شکوہ اب ہے یہی ابتدا میں تھا امجدؔ
کریم تھا مری کوشش میں انتہا رکھتا
میں عمر اپنے لیے بھی تو کچھ بچا رکھتا
خیال صبحوں کرن ساحلوں کی اوٹ سدا
میں موتیوں جڑی بنسی کی لے جگا رکھتا
جب آسماں پہ خداؤں کے لفظ ٹکراتے
میں اپنی سوچ کی بے حرف لو جلا رکھتا
ہوا کے سایوں میں ہجر اور ہجرتوں کے وہ خواب
میں اپنے دل میں وہ سب منزلیں سجا رکھتا
انہیں حدوں تک ابھرتی یہ لہر جس میں ہوں میں
اگر میں سب یہ سمندر بھی وقت کا رکھتا
پلٹ پڑا ہوں شعاعوں کے چیتھڑے اوڑھے
نشیب زینۂ ایام پر عصا رکھتا
یہ کون ہے جو مری زندگی میں آ آ کر
ہے مجھ میں کھوئے مرے جی کو ڈھونڈتا رکھتا
غموں کے سبز تبسم سے کنج مہکے ہیں
سمے کے سم کے ثمر ہیں میں اور کیا رکھتا
کسی خیال میں ہوں یا کسی خلا میں ہوں
کہاں ہوں کوئی جہاں تو مرا پتا رکھتا
جو شکوہ اب ہے یہی ابتدا میں تھا امجدؔ
کریم تھا مری کوشش میں انتہا رکھتا
وہ خوش دلی جو دلوں کو دلوں سے جوڑ گئی
ابد کی راہ پہ بے خواب دھڑکنوں کی دھمک
جو سو گئے انہیں بجھتے جگوں میں چھوڑ گئی
یہ زندگی کی لگن ہے کہ رت جگوں کی ترنگ
جو جاگتے تھے انہی کو یہ دھن جھنجھوڑ گئی
وہ ایک ٹیس جسے تیرا نام یاد رہا
کبھی کبھی تو مرے دل کا ساتھ چھوڑ گئی
رکا رکا ترے لب پر عجب سخن تھا کوئی
تری نگہ بھی جسے نا تمام چھوڑ گئی
فراز دل سے اترتی ہوئی ندی امجدؔ
جہاں جہاں تھا حسیں وادیوں کا موڑ گئی






