اوروں کا تھا بیان تو موج صدا رہے
Poet: امجد اسلام امجد By: Umair Khan, Abbottabad
اوروں کا تھا بیان تو موج صدا رہے
خود عمر بھر اسیر لب مدعا رہے
مثل حباب بحر غم حادثات میں
ہم زیر بار منت آب و ہوا رہے
ہم اس سے اپنی بات کا مانگیں اگر جواب
لہروں کا پیچ و خم وہ کھڑا دیکھتا رہے
آیا تو اپنی آنکھ بھی اپنی نہ بن سکی
ہم سوچتے تھے اس سے کبھی سامنا رہے
گلشن میں تھے تو رونق رنگ چمن بنے
جنگل میں ہم امانت باد صبا رہے
سرخی بنے تو خون شہیداں کا رنگ تھے
روشن ہوئے تو مشعل راہ بقا رہے
امجدؔ در نگار پہ دستک ہی دیجئے
اس بے کراں سکوت میں کچھ غلغلہ رہے
More Amjad Islam Amjad Poetry
دل کے دریا کو کسی روز اتر جانا ہے دل کے دریا کو کسی روز اتر جانا ہے
اتنا بے سمت نہ چل لوٹ کے گھر جانا ہے
اس تک آتی ہے تو ہر چیز ٹھہر جاتی ہے
جیسے پانا ہی اسے اصل میں مر جانا ہے
بول اے شام سفر رنگ رہائی کیا ہے
دل کو رکنا ہے کہ تاروں کو ٹھہر جانا ہے
کون ابھرتے ہوئے مہتاب کا رستہ روکے
اس کو ہر طور سوئے دشت سحر جانا ہے
میں کھلا ہوں تو اسی خاک میں ملنا ہے مجھے
وہ تو خوشبو ہے اسے اگلے نگر جانا ہے
وہ ترے حسن کا جادو ہو کہ میرا غم دل
ہر مسافر کو کسی گھاٹ اتر جانا ہے
اتنا بے سمت نہ چل لوٹ کے گھر جانا ہے
اس تک آتی ہے تو ہر چیز ٹھہر جاتی ہے
جیسے پانا ہی اسے اصل میں مر جانا ہے
بول اے شام سفر رنگ رہائی کیا ہے
دل کو رکنا ہے کہ تاروں کو ٹھہر جانا ہے
کون ابھرتے ہوئے مہتاب کا رستہ روکے
اس کو ہر طور سوئے دشت سحر جانا ہے
میں کھلا ہوں تو اسی خاک میں ملنا ہے مجھے
وہ تو خوشبو ہے اسے اگلے نگر جانا ہے
وہ ترے حسن کا جادو ہو کہ میرا غم دل
ہر مسافر کو کسی گھاٹ اتر جانا ہے
وسیم
صدیاں جن میں زندہ ہوں وہ سچ بھی مرنے لگتے ہیں صدیاں جن میں زندہ ہوں وہ سچ بھی مرنے لگتے ہیں
دھوپ آنکھوں تک آ جائے تو خواب بکھرنے لگتے ہیں
انسانوں کے روپ میں جس دم سائے بھٹکیں سڑکوں پر
خوابوں سے دل چہروں سے آئینے ڈرنے لگتے ہیں
کیا ہو جاتا ہے ان ہنستے جیتے جاگتے لوگوں کو
بیٹھے بیٹھے کیوں یہ خود سے باتیں کرنے لگتے ہیں
عشق کی اپنی ہی رسمیں ہیں دوست کی خاطر ہاتھوں میں
جیتنے والے پتے بھی ہوں پھر بھی ہرنے لگتے ہیں
دیکھے ہوئے وہ سارے منظر نئے نئے دکھلائی دیں
ڈھلتی عمر کی سیڑھی سے جب لوگ اترنے لگتے ہیں
بیداری آسان نہیں ہے آنکھیں کھلتے ہی امجدؔ
قدم قدم ہم سپنوں کے جرمانے بھرنے لگتے ہیں
دھوپ آنکھوں تک آ جائے تو خواب بکھرنے لگتے ہیں
انسانوں کے روپ میں جس دم سائے بھٹکیں سڑکوں پر
خوابوں سے دل چہروں سے آئینے ڈرنے لگتے ہیں
کیا ہو جاتا ہے ان ہنستے جیتے جاگتے لوگوں کو
بیٹھے بیٹھے کیوں یہ خود سے باتیں کرنے لگتے ہیں
عشق کی اپنی ہی رسمیں ہیں دوست کی خاطر ہاتھوں میں
جیتنے والے پتے بھی ہوں پھر بھی ہرنے لگتے ہیں
دیکھے ہوئے وہ سارے منظر نئے نئے دکھلائی دیں
ڈھلتی عمر کی سیڑھی سے جب لوگ اترنے لگتے ہیں
بیداری آسان نہیں ہے آنکھیں کھلتے ہی امجدؔ
قدم قدم ہم سپنوں کے جرمانے بھرنے لگتے ہیں
شاہ رخ
جیسے میں دیکھتا ہوں لوگ نہیں دیکھتے ہیں جیسے میں دیکھتا ہوں لوگ نہیں دیکھتے ہیں
ظلم ہوتا ہے کہیں اور کہیں دیکھتے ہیں
تیر آیا تھا جدھر سے یہ مرے شہر کے لوگ
کتنے سادا ہیں کہ مرہم بھی وہیں دیکھتے ہیں
کیا ہوا وقت کا دعویٰ کہ ہر اک اگلے برس
ہم اسے اور حسیں اور حسیں دیکھتے ہیں
اس گلی میں ہمیں یوں ہی تو نہیں دل کی تلاش
جس جگہ کھوئے کوئی چیز وہیں دیکھتے ہیں
شاید اس بار ملے کوئی بشارت امجدؔ
آئیے پھر سے مقدر کی جبیں دیکھتے ہیں
ظلم ہوتا ہے کہیں اور کہیں دیکھتے ہیں
تیر آیا تھا جدھر سے یہ مرے شہر کے لوگ
کتنے سادا ہیں کہ مرہم بھی وہیں دیکھتے ہیں
کیا ہوا وقت کا دعویٰ کہ ہر اک اگلے برس
ہم اسے اور حسیں اور حسیں دیکھتے ہیں
اس گلی میں ہمیں یوں ہی تو نہیں دل کی تلاش
جس جگہ کھوئے کوئی چیز وہیں دیکھتے ہیں
شاید اس بار ملے کوئی بشارت امجدؔ
آئیے پھر سے مقدر کی جبیں دیکھتے ہیں
رضا






