اَس نے وعدہ کیا ہے مجھ سے ملنے آنے کا
جواز مِلا ہے آنے کے لئے عید کے بہانے کا
اِس بار افواہ نہیں ہے بلکہ یہ پکا ٹبوت ہے
اَس نے پتہ لیا ہے مجھ سے میرے ٹھکانے کا
خوابوں کا انمول خزینہ نیندوں میں اَبھرتا ہے
پہروں پہرہ دیتی ہیں آنکھیں اِس خزانے کا
کوئی ثبوت کوئی دلیل کوئی گواہ نہیں شاید!
لیکن اپنا دِل شاہد ہے اپنے ہی افسانے کا
قریہ قریہ بھٹکا ہے جو اپنی ہی کھوج میں
کوئی حال نہ پوچھے مجھ سےاَس دیوانے کا
جنگل میں صحراؤں میں تنہا گھَوما کرتا ہے
جیسے کہ شیدائی ہو یہ پگلہ اِس ویرانے کا
بچپن بھی اک دور تھا عظمٰی آیا آ کے چلا گیا
لیکن برسوں یاد رہے گا قصہ اَس زمانے کا