اُجڑنے کو ہے جہاں ، جہاں کو بچا تو
بچتا نہیں جہاں تو ، ایماں کو بچا تو
علی الاعلان رحمٰن کی حکم عدولیاں
گِر نہ پڑے زمیں پر ، آسماں کو بچا تو
حفاظت اپنے گھر کی تو پرندے بھی کرتے ہیں
بِکھرتے ہوئے کسی کے ، آشیاں کو بچا تو
انسانوں کے روپ میں یہاں بھیڑئیے بھی ہیں
چھوڑ کر اُن کو ، انساں کو بچا تو
جہاں یکجا ہو مسلماں وہ ڈھونڈے نہیں ملتے
ملے جو تجھ کو ایسے ، آستاں کو بچا تو
بے دینی کے گِدھ نوچیں گے تجھے بھی
جائےایماں ہے دل اُس ، جاں کو بچا تو
تقاضہ جو کر رہا ہے وہ ، اُس کو نبھائیے
نہیں ذمّے میں تیرے کہ ، قرآں کو بچا تو
بے جا استعمال اس کا خسران ہے
کلامِ بے سود سے ، زباں کو بچا تو
مسلماں جو مٹ گیا تو کافر بھی نہ رہے گا
خود دشمن بنا ہے اپنا ، ناداں کو بچا تو
دنیا ہی کو جنت کرنے میں لگا ہے
آخرت کے لئے بھی کچھ ، ارماں کو بچا تو
اخلاق دین کے لئے تجھے وقت کہاں ہے
نوکری کو بچا تو ، دُکاں کو بچا تو