(گزشتہ برس کی ایک نمکین غزل، تازہ اضافوں کے ساتھ)
اُس کو دیکھ کے "اچھے اچھے"
تھوڑے لِبرَل ہو جاتے ہیں
چھوڑو چُھپ چُھپ کر مِلنے کو
ہم تم لِیگَل ہو جاتے ہیں
سَوتی قوموں کے بالآخر
سپنے رَینٹَل ہو جاتے ہیں
"رایَل" کہنے سے کیا بھیا
پنکھے رایَل ہو جاتے ہیں؟
ویسے ہم گستاخ نہیں پر
زیرِ بوتل ہو جاتے ہیں
عاشق تیرے بیٹھے بیٹھے
آخر فاسَل ہو جاتے ہیں
اکثر گہرا سوچنے والے
اکثر مینٹل ہو جاتے ہیں
خود آگاہی سے کیا حضرت
مرغے اِیگل ہو جاتے ہیں؟
شعر ہمارے سُن کر بلبل
سَینٹِیمنٹَل ہو جاتے ہیں
"نوبَیل" پرائز ملنے سے کیا
قاتل نوبَل ہو جاتے ہیں؟
سردی میں سویڈن کی صاحب
شکوے ڈَینٹَل ہو جاتے ہیں
نیت میں جب کھوٹ ہو پیارے
مشکل سب حل ہو جاتے ہیں