اُسی بے وفا سے وفا چاہتا ہوں
'مِری سادگی دیکھ کیا چاہتا ہوں"
کھچا آ رہا ہوں تجلی پہ تیری
مجھے کیا خبر ہے میں کیا چاہتا ہوں
ہے مسلک سے مطلب نہ دیر و حرم سے
تِرا قرب تیری رضا چاہتا ہوں
عطا ہو دلِ منتشر کو مُنیبؔی
کوئی درد قبلہ نُما چاہتا ہوں
ثنا خوانِ تقدیسِ دیر و حرم سے
مَیں انساں کی حرمت سُنا چاہتا ہوں
بہت ہو چُکا جورِ جبر و ارادت
تماشائے روزِ جزا چاہتا ہوں
ہوس کے فسانے میں الفت کا مارا
مَیں حرفِ غلَط ہوں، مِٹا چاہتا ہوں