سبحان اللہ کیا تھی اُس پار سے، اِس پار کی حسرت
کتنی شدت سے تھی محبوب کے دیدار کی حسرت
نہ ہو بیاں، کشش کیا تھی، نگاہِ التفات میں
بلایا عرش پر اُن کو، فرشتوں کی برات میں
بیٹھے براق پر گزرے جہاں سے بھی آقا پیارے
پڑھیں درود صف باندھے، ملائک و انبیاء سارے
کئے ساکت جہاں سارے، کوئی حرکت نہ ہو حائل
کہ بس محبوب ہی، محبوب کی جانب رہے مائل
کُھلے کائنات کے اُن پر، مقفل باب تھے جتنے
اٹھائے دو جہانوں پر، پڑے حجاب تھے جتنے
محبت کا تقاضا تھا، سفارش رد نہ ہونی تھی
جو رب سے مانگتے ملتا، کہ جس کی حد نہ ہونی تھی
خدا کے روبرو ہوکر، مانگا بھی تو کیا مانگا
میرے آقا نے ہر صورت، اُمت کا بھلا مانگا
بلائے خود خدا ملنے، جنہیں عرشِ معلیٰ پر
صفی اللہ، نجی اللہ، جنہیں سراج کہتے ہیں
وصلِ حقِ سبحانہ، جو شب ٹھہری اک سند
اُسی پُرنور سی شب کو، شبِ معراج کہتے ہیں
میرے شافع میرے آقا، خوف ہو کیونکر مولا
میں اُنکا اُمتی ٹھہرا، کروں سجدہ شکر مولا