آگیا تصور میں جب نبی کا دروازہ
کُھل گیا نگاہوں پر روشنی کا دروازہ
اُن کے خوانِ نعمت سے جس کو مِل گیا ٹکڑا
دیکھتا ہے کب لوگو وہ کسی کا دروازہ
سب نظام جھوٹے ہیں سب نظام فرسودہ
اُن کا پاک اُسوہ ہے آشتی کا دروازہ
جو بھی اُن کے قدموں کی خاک ڈالے آنکھوں میں
بس اُسی پہ کھلتا ہے آگہی کا دروازہ
اُن کی یاد میں رہنا اُن کی یاد میں رونا
راستہ محبت کا راستی کا دروازہ
جو نبی سے ملتا ہے وہ علی سے ملتا ہے
جو نبی کا دروازہ وہ علی کا دروازہ
لامکاں پہ جانے کا ، لامکاں سے آنے کا
بند کیا ہے آقا نے وہ کبھی کا دروازہ
آرزو ہے ساجدؔ کی اُن کا جلوہ مل جائے
اور بند ہو جائے زندگی کا دروازہ