اپنا تو کام دل کو ملانا ہے ہر گھڑی
الفت کے ہی چراغ جلانا ہے ہر گھڑی
نفرت کے ہر زہر کا تریاق ہم بنیں
نفرت کی ہر صدا کو دبانا ہے ہر گھڑی
اپنے چمن میں کوئی نہ تفریق ہو سکے
ایسی روِش پہ سب کو چلانا ہے ہر گھڑی
اپنا پیام جو بھی ہو انسانیت کا ہو
اس بات کو یقینی بنانا ہے ہر گھڑی
اپنا جو حوصلہ ہو وہ پربت کو مات دے
تو بزدلی کو دل سے مٹانا ہے ہر گھڑی
گل ہوں عزیز تو کبھی کانٹوں سے ہو نباہ
ایسا سبق ہی سب کو سکھانا ہے ہر گھڑی
یہ اثر کا مشن ہے اسی پر قرار بھی ہے
نفرت کی آگ کو ہی بجھانا ہے ہر گھڑی