اپنوں نے وہ رنج دئے ہیں بیگانے یاد آتے ہیں
دیکھ کے اس بستی کی حالت ویرانے یاد آتے ہیں
اس نگری میں قدم قدم پہ سر کو جھکانا پڑتا ہے
اس نگری میں قدم قدم پر بت خانے یاد آتے ہیں
آنکھیں پر نم ہو جاتی ہیں غربت کے صحراؤں میں
جب اس رم جھم کی وادی کے افسانے یاد آتے ہیں
ایسے ایسے درد ملے ہیں نئے دیاروں میں ہم کو
بچھڑے ہوئے کچھ لوگ پرانے یارانے یاد آتے ہیں
جن کے کارن آج ہمارے حال پہ دنیا ہستی ہے
کتنے ظالم چہرے جانے پہچانے یاد آتے ہیں
یوں نہ لٹی تھی گلیوں دولت اپنے اشکوں کی
روتے ہیں تو ہم کو اپنے غم خانے یاد آتے ہیں
کوئی تو پرچم لے کر نکلے اپنے گریباں کا جالبؔ
چاروں جانب سناٹا ہے دیوانے یاد آتے ہیں