اپنی تدبیر نہ تقدیر پہ رونا آیا
Poet: Naushad Ali By: afzal, khi
اپنی تدبیر نہ تقدیر پہ رونا آیا
دیکھ کر چپ تری تصویر پہ رونا آیا
کیا حسیں خواب محبت نے دکھائے تھے ہمیں
جب کھلی آنکھ تو تعبیر پہ رونا آیا
اشک بھر آئے جو دنیا نے ستم دل پہ کئے
اپنی لٹتی ہوئی جاگیر پہ رونا آیا
خون دل سے جو لکھا تھا وہ مٹا اشکوں سے
اپنے ہی نامے کی تحریر پہ رونا آیا
جب تلک قید تھے تقدیر پہ ہم روتے تھے
آج ٹوٹی ہوئی زنجیر پہ رونا آیا
راہ ہستی پہ چلا موت کی منزل پہ ملا
ہم کو اس راہ کے رہ گیر پہ رونا آیا
جو نشانے پہ لگا اور نہ پلٹ کر آیا
ہم کو نوشادؔ اسی تیر پہ رونا آیا
More Naushad Ali Poetry
کیوں ملی تھی حیات یاد کرو کیوں ملی تھی حیات یاد کرو
یاد رکھنے کی بات یاد کرو
کون چھوٹا کہاں کہاں چھوٹا
راہ کے حادثات یاد کرو
ابھی کل تک وفا کی راہوں میں
تم بھی تھے میرے ساتھ یاد کرو
مجھ سے کیا پوچھتے ہو حال مرا
خود کوئی واردات یاد کرو
جس دم آنکھیں ملی تھی آنکھوں سے
تھی کہاں کائنات یاد کرو
بھول آئے جبیں کو رکھ کے کہاں
کہاں پہنچے تھے رات یاد کرو
دل کو آئینہ گر بنانا ہے
آئینے کے صفات یاد کرو
نکلے گا چاند انہیں اندھیروں سے
ان سے ملنے کی رات یاد کرو
چھوڑو جانے دو جو ہوا سو ہوا
آج کیوں کل کی بات یاد کرو
کرنا ہے شاعری اگر نوشادؔ
میرؔ کا کلیات یاد کرو
یاد رکھنے کی بات یاد کرو
کون چھوٹا کہاں کہاں چھوٹا
راہ کے حادثات یاد کرو
ابھی کل تک وفا کی راہوں میں
تم بھی تھے میرے ساتھ یاد کرو
مجھ سے کیا پوچھتے ہو حال مرا
خود کوئی واردات یاد کرو
جس دم آنکھیں ملی تھی آنکھوں سے
تھی کہاں کائنات یاد کرو
بھول آئے جبیں کو رکھ کے کہاں
کہاں پہنچے تھے رات یاد کرو
دل کو آئینہ گر بنانا ہے
آئینے کے صفات یاد کرو
نکلے گا چاند انہیں اندھیروں سے
ان سے ملنے کی رات یاد کرو
چھوڑو جانے دو جو ہوا سو ہوا
آج کیوں کل کی بات یاد کرو
کرنا ہے شاعری اگر نوشادؔ
میرؔ کا کلیات یاد کرو
ahmad
آگ اک اور لگا دیں گے ہمارے آنسو آگ اک اور لگا دیں گے ہمارے آنسو
نکلے آنکھوں سے اگر دل کے سہارے آنسو
حاصل خون جگر دل کے ہیں پارے آنسو
بے بہا لعل و گہر ہیں یہ ہمارے آنسو
ہے کوئی اب جو لگی دل کی بجھائے میری
ہجر میں روکے گنوا بیٹھا ہوں سارے آنسو
اس مسیحا کی جو فرقت میں ہوں رویا شب بھر
بن گئے چرخ چہارم کے ستارے آنسو
خون دل خون جگر بہہ گیا پانی ہو کر
کچھ نہ کام آئے محبت میں ہمارے آنسو
مجھ کو سونے نہ دیا اشک فشانی نے مری
رات بھر گنتے رہے چرخ کے تارے آنسو
وہ سنور کر کبھی آئے جو تصور میں مرے
چشم مشتاق نے صدقے میں اتارے آنسو
پاس رسوائی نے چھوڑا نہ سکوں کا دامن
گرتے گرتے رکے آنکھوں کے کنارے آنسو
لطف اب آیا مری اشک فشانی کا حضور
پیاری آنکھوں سے کسی کے بہے پیارے آنسو
میری قسمت میں ہے رونا مجھے رو لینے دو
تم نہ اس طرح بہاؤ مرے پیارے آنسو
ماہ و انجم پہ نہ پھر اپنے کبھی ناز کرے
دیکھ لے چرخ کسی دن جو ہمارے آنسو
یوں ہی طوفاں جو اٹھاتے رہے کچھ دن نوشادؔ
آگ دنیا میں لگا دیں گے ہمارے آنسو
نکلے آنکھوں سے اگر دل کے سہارے آنسو
حاصل خون جگر دل کے ہیں پارے آنسو
بے بہا لعل و گہر ہیں یہ ہمارے آنسو
ہے کوئی اب جو لگی دل کی بجھائے میری
ہجر میں روکے گنوا بیٹھا ہوں سارے آنسو
اس مسیحا کی جو فرقت میں ہوں رویا شب بھر
بن گئے چرخ چہارم کے ستارے آنسو
خون دل خون جگر بہہ گیا پانی ہو کر
کچھ نہ کام آئے محبت میں ہمارے آنسو
مجھ کو سونے نہ دیا اشک فشانی نے مری
رات بھر گنتے رہے چرخ کے تارے آنسو
وہ سنور کر کبھی آئے جو تصور میں مرے
چشم مشتاق نے صدقے میں اتارے آنسو
پاس رسوائی نے چھوڑا نہ سکوں کا دامن
گرتے گرتے رکے آنکھوں کے کنارے آنسو
لطف اب آیا مری اشک فشانی کا حضور
پیاری آنکھوں سے کسی کے بہے پیارے آنسو
میری قسمت میں ہے رونا مجھے رو لینے دو
تم نہ اس طرح بہاؤ مرے پیارے آنسو
ماہ و انجم پہ نہ پھر اپنے کبھی ناز کرے
دیکھ لے چرخ کسی دن جو ہمارے آنسو
یوں ہی طوفاں جو اٹھاتے رہے کچھ دن نوشادؔ
آگ دنیا میں لگا دیں گے ہمارے آنسو
Manahil
ابھی ساز دل میں ترانے بہت ہیں ابھی ساز دل میں ترانے بہت ہیں
ابھی زندگی کے بہانے بہت ہیں
یہ دنیا حقیقت کی قائل نہیں ہے
فسانے سناؤ فسانے بہت ہیں
ترے در کے باہر بھی دنیا پڑی ہے
کہیں جا رہیں گے ٹھکانے بہت ہیں
مرا اک نشیمن جلا بھی تو کیا ہے
چمن میں ابھی آشیانے بہت ہیں
نئے گیت پیدا ہوئے ہیں انہیں سے
جو پرسوز نغمے پرانے بہت ہیں
در غیر پر بھیک مانگو نہ فن کی
جب اپنے ہی گھر میں خزانے بہت ہیں
ہیں دن بدمذاقی کے نوشادؔ لیکن
ابھی تیرے فن کے دوانے بہت ہیں
ابھی زندگی کے بہانے بہت ہیں
یہ دنیا حقیقت کی قائل نہیں ہے
فسانے سناؤ فسانے بہت ہیں
ترے در کے باہر بھی دنیا پڑی ہے
کہیں جا رہیں گے ٹھکانے بہت ہیں
مرا اک نشیمن جلا بھی تو کیا ہے
چمن میں ابھی آشیانے بہت ہیں
نئے گیت پیدا ہوئے ہیں انہیں سے
جو پرسوز نغمے پرانے بہت ہیں
در غیر پر بھیک مانگو نہ فن کی
جب اپنے ہی گھر میں خزانے بہت ہیں
ہیں دن بدمذاقی کے نوشادؔ لیکن
ابھی تیرے فن کے دوانے بہت ہیں
aslam
یہ باتیں آج کی کل جس کتاب میں لکھنا یہ باتیں آج کی کل جس کتاب میں لکھنا
تم اپنے جرم کو میرے حساب میں لکھنا
حدیث دل کو قلم سے نہ آشنا کرنا
کہانیاں ہی ہمیشہ جواب میں لکھنا
مجھے سمجھنے کی کوشش ہے شغل لا حاصل
جو چاہنا وہی تم میرے باب میں لکھنا
وہ کہتے ہیں لکھو نامہ مگر لحاظ رہے
ہمارا نام نہ ہرگز خطاب میں لکھنا
مٹا مٹا جو رہا ظلمتوں کے پردے میں
وہ حرف حق ورق آفتاب میں لکھنا
ہمیشہ جس کی ہوس کو تھی آرزوئے بہشت
اسی کی روح رہی تھی عذاب میں لکھنا
جو بات لکھنے کو تھا مضطرب بہت نوشادؔ
وہی میں بھول گیا اضطراب میں لکھنا
تم اپنے جرم کو میرے حساب میں لکھنا
حدیث دل کو قلم سے نہ آشنا کرنا
کہانیاں ہی ہمیشہ جواب میں لکھنا
مجھے سمجھنے کی کوشش ہے شغل لا حاصل
جو چاہنا وہی تم میرے باب میں لکھنا
وہ کہتے ہیں لکھو نامہ مگر لحاظ رہے
ہمارا نام نہ ہرگز خطاب میں لکھنا
مٹا مٹا جو رہا ظلمتوں کے پردے میں
وہ حرف حق ورق آفتاب میں لکھنا
ہمیشہ جس کی ہوس کو تھی آرزوئے بہشت
اسی کی روح رہی تھی عذاب میں لکھنا
جو بات لکھنے کو تھا مضطرب بہت نوشادؔ
وہی میں بھول گیا اضطراب میں لکھنا
ghazal
نہ مندر میں صنم ہوتے نہ مسجد میں خدا ہوتا نہ مندر میں صنم ہوتے نہ مسجد میں خدا ہوتا
ہمیں سے یہ تماشہ ہے نہ ہم ہوتے تو کیا ہوتا
نہ ایسی منزلیں ہوتیں نہ ایسا راستہ ہوتا
سنبھل کر ہم ذرا چلتے تو عالم زیر پا ہوتا
گھٹا چھاتی بہار آتی تمہارا تذکرہ ہوتا
پھر اس کے بعد گل کھلتے کہ زخم دل ہرا ہوتا
زمانے کو تو بس مشق ستم سے لطف لینا ہے
نشانے پر نہ ہم ہوتے تو کوئی دوسرا ہوتا
ترے شان کرم کی لاج رکھ لی غم کے ماروں نے
نہ ہوتا غم تو اس دنیا میں ہر بندہ خدا ہوتا
مصیبت بن گئے ہیں اب تو یہ سانسوں کے دو تنکے
جلا تھا جب تو پورا آشیانہ جل گیا ہوتا
ہمیں تو ڈوبنا ہی تھا یہ حسرت رہ گئی دل میں
کنارے آپ ہوتے اور سفینہ ڈوبتا ہوتا
ارے او جیتے جی درد جدائی دینے والے سن
تجھے ہم صبر کر لیتے اگر مر کے جدا ہوتا
بلا کر تم نے محفل میں ہمیں غیروں سے اٹھوایا
ہمیں خود اٹھ گئے ہوتے اشارہ کر دیا ہوتا
ترے احباب تجھ سے مل کے پھر مایوس لوٹ آئے
تجھے نوشادؔ کیسی چپ لگی کچھ تو کہا ہوتا
ہمیں سے یہ تماشہ ہے نہ ہم ہوتے تو کیا ہوتا
نہ ایسی منزلیں ہوتیں نہ ایسا راستہ ہوتا
سنبھل کر ہم ذرا چلتے تو عالم زیر پا ہوتا
گھٹا چھاتی بہار آتی تمہارا تذکرہ ہوتا
پھر اس کے بعد گل کھلتے کہ زخم دل ہرا ہوتا
زمانے کو تو بس مشق ستم سے لطف لینا ہے
نشانے پر نہ ہم ہوتے تو کوئی دوسرا ہوتا
ترے شان کرم کی لاج رکھ لی غم کے ماروں نے
نہ ہوتا غم تو اس دنیا میں ہر بندہ خدا ہوتا
مصیبت بن گئے ہیں اب تو یہ سانسوں کے دو تنکے
جلا تھا جب تو پورا آشیانہ جل گیا ہوتا
ہمیں تو ڈوبنا ہی تھا یہ حسرت رہ گئی دل میں
کنارے آپ ہوتے اور سفینہ ڈوبتا ہوتا
ارے او جیتے جی درد جدائی دینے والے سن
تجھے ہم صبر کر لیتے اگر مر کے جدا ہوتا
بلا کر تم نے محفل میں ہمیں غیروں سے اٹھوایا
ہمیں خود اٹھ گئے ہوتے اشارہ کر دیا ہوتا
ترے احباب تجھ سے مل کے پھر مایوس لوٹ آئے
تجھے نوشادؔ کیسی چپ لگی کچھ تو کہا ہوتا
Jabbar
اپنی تدبیر نہ تقدیر پہ رونا آیا اپنی تدبیر نہ تقدیر پہ رونا آیا
دیکھ کر چپ تری تصویر پہ رونا آیا
کیا حسیں خواب محبت نے دکھائے تھے ہمیں
جب کھلی آنکھ تو تعبیر پہ رونا آیا
اشک بھر آئے جو دنیا نے ستم دل پہ کئے
اپنی لٹتی ہوئی جاگیر پہ رونا آیا
خون دل سے جو لکھا تھا وہ مٹا اشکوں سے
اپنے ہی نامے کی تحریر پہ رونا آیا
جب تلک قید تھے تقدیر پہ ہم روتے تھے
آج ٹوٹی ہوئی زنجیر پہ رونا آیا
راہ ہستی پہ چلا موت کی منزل پہ ملا
ہم کو اس راہ کے رہ گیر پہ رونا آیا
جو نشانے پہ لگا اور نہ پلٹ کر آیا
ہم کو نوشادؔ اسی تیر پہ رونا آیا
دیکھ کر چپ تری تصویر پہ رونا آیا
کیا حسیں خواب محبت نے دکھائے تھے ہمیں
جب کھلی آنکھ تو تعبیر پہ رونا آیا
اشک بھر آئے جو دنیا نے ستم دل پہ کئے
اپنی لٹتی ہوئی جاگیر پہ رونا آیا
خون دل سے جو لکھا تھا وہ مٹا اشکوں سے
اپنے ہی نامے کی تحریر پہ رونا آیا
جب تلک قید تھے تقدیر پہ ہم روتے تھے
آج ٹوٹی ہوئی زنجیر پہ رونا آیا
راہ ہستی پہ چلا موت کی منزل پہ ملا
ہم کو اس راہ کے رہ گیر پہ رونا آیا
جو نشانے پہ لگا اور نہ پلٹ کر آیا
ہم کو نوشادؔ اسی تیر پہ رونا آیا
afzal






