اپنے احوال پہ ہم آپ تھے حیراں بابا
آنکھ دریا تھی مگر دل تھا بیاباں بابا
یہ وہ آنسو ہیں جو اندر کی طرف گرتے ہیں
ہوں بھی تو ہم نظر آتے نہیں گریاں بابا
اس قدر صدمہ ہے کیوں ایک دل ویراں پر
شہر کے شہر یہاں ہو گئے ویراں بابا
یہ شب و روز کے ہنگاموں سے سہمے ہوئے لوگ
رہتے ہیں موج صبا سے بھی ہراساں بابا
اونچی دیواروں سے باہر نکل آئے تو کھلا
ہم نے سینوں میں بنا رکھے ہیں زنداں بابا
خوش گماں ہو کے نہ بیٹھ ان در و دیوار سے پوچھ
اہل خانہ بھی ہیں کچھ روز کے مہماں بابا
یخ ہواؤں سے مجھے آتی ہے خوشبوئے بہار
شعلۂ گل کی امیں ہے یہ زمستاں بابا
گرد باد آئیں کہ گرداب، بیاباں ہو کہ بحر
زندگی ہوتی ہے آپ اپنی نگہباں بابا
گئی رت لوٹ بھی آتی ہے ضیاؔ حوصلہ رکھ
ہم نے دیکھی ہیں سیہ شاخوں پہ کلیاں بابا