اپنے انکار کے برعکس برابر کوئی تھا
دل میں اک خواب تھا اور خواب کے اندر کوئی تھا
ہم پسینے میں شرابور تھے اور دور کہیں
ایسے لگتا ہے کہیں تخت ہوا پر کوئی تھا
اس کے باغات پہ اترا ہوا تھا موسم رنگ
قابل دید ہر اک سمت سے منظر کوئی تھا
شک اگر تھا بھی تو مٹتا گیا ہوتے ہوتے
اور اب پختہ یقیں ہے کہ سراسر کوئی تھا
اس دل تنگ میں کیا اس کی رہائش ہوتی
یعنی اندر تو نہیں تھا مرے باہر کوئی تھا
شکل کچھ یاد ہے کچھ بھول چکی ہے اس کی
کوئی دن تھے کہ مکمل مجھے ازبر کوئی تھا
دائرے میں کبھی رکھا ہی نہیں اس نے قدم
اور محبت کے مضافات میں اکثر کوئی تھا
میں اسے چھوڑ کے خود ہی چلا آیا تھا کبھی
اور اب پوچھتا پھرتا ہوں مرا گھر کوئی تھا
یاوہ گو تھا ظفرؔ اس عہد خرابی میں کوئی
یاوہ گو ہی اسے کہتے ہیں سخن ور کوئی تھا