اپنے ماحول سے تھے قیس کے رشتے کیا کیا
دشت میں آج بھی اٹھتے ہیں بگولے کیا کیا
عشق معیار وفا کو نہیں کرتا نیلام
ورنہ ادراک نے دکھلائے تھے رستے کیا کیا
یہ الگ بات کہ برسے نہیں گرجے تو بہت
ورنہ بادل مرے صحراؤں پہ امڈے کیا کیا
آگ بھڑکی تو در و بام ہوئے راکھ کے ڈھیر
اور دیتے رہے احباب دلاسے کیا کیا
لوگ اشیا کی طرح بک گئے اشیا کے لیے
سر بازار تماشے نظر آئے کیا کیا
لفظ کس شان سے تخلیق ہوا تھا لیکن
اس کا مفہوم بدلتے رہے نقطے کیا کیا
اک کرن تک بھی نہ پہنچی مرے باطن میں ندیمؔ
سر افلاک دمکتے رہے تارے کیا کیا