اپنے کرم سے ادنیٰ کو اعلیٰ بنا دیا
جب چاہا اپنی شانِ کریمی دکھا دیا
جب چاہا تب کسی کو پیمبر بنا دیا
سچی طلب پہ راہ سیدھی بتا دیا
سود و زیاں کا اب تو نہ احساس کچھ رہا
حرص و طمع نے دل میں تو ظلمت بڑھا دیا
دنیا کے اے مسافر یہ غفلت ہے شے بری
غفلت نے ہی تو کشتی بھنور میں پھنسا دیا
جس کو نشہ چڑھا بھی کبھی تو غرور کا
اس کے نشے کو خاک میں بالکل ملا دیا
پورس ہو یا سکندر یا فرعون کی اکڑ
نام و نشاں تو ان کا بالکل مٹا دیا
اس کے کرم کا اثر بھی محتاج ہی تو ہے
اس کے کرم نے اس کی تو قسمت جگا دیا