اپنے ہونے کی تب و تاب سے باہر نہ ہوئے
ہم ہیں وہ سیپ جو آزادۂ گوہر نہ ہوئے
حرف بے صوت کی مانند رہے دنیا میں
دشت امکاں میں کھلے نقش مصور نہ ہوئے
پھول کے رنگ سر شاخ خزاں بھی چمکے
قیدئ رسم چمن خاک کے جوہر نہ ہوئے
تھک کے گرتے بھی نہیں گھر کو پلٹتے بھی نہیں
نجم افلاک ہوئے آس کے طائر نہ ہوئے
اس کی گلیوں میں رہے گرد سفر کی صورت
سنگ منزل نہ بنے راہ کا پتھر نہ ہوئے
اپنی ناکام امیدوں کے خم و پیچ میں گم
ابر کم آب تھے ہم رزق سمندر نہ ہوئے