د یکھی جو ان کی صورت خیالات ماضی میں جا نکلے
دوستی میں کسی کےگل کھلےتو کسی کے بےشمار خارنکلے
تھے ایسے بھی دوست جو بڑے ہی بے وفا نکلے
دیکھے ایسے بھی اجنبی جو دوستی میں با وفا نکلے
یوں تو با نٹا ہم نے گناہ کے سنگ ثواب آدھا آدھا
مگر رستے میں اپنے سنگریزے بے حساب نکلے
جانا جنہیں دوست درخشندے وہی اپنے دشمن جاں نکلے
تھے اجنبی جو دوستی میں وہی اپنے رفیق سفر نکلے