اچانک دل ربا موسم کا دل آزار ہو جانا
دعا آساں نہیں رہنا سخن دشوار ہو جانا
تمہیں دیکھیں نگاہیں اور تم کو ہی نہیں دیکھیں
محبت کے سبھی رشتوں کا یوں نادار ہو جانا
ابھی تو بے نیازی میں تخاطب کی سی خوشبو تھی
ہمیں اچھا لگا تھا درد کا دل دار ہو جانا
اگر سچ اتنا ظالم ہے تو ہم سے جھوٹ ہی بولو
ہمیں آتا ہے پت جھڑ کے دنوں گل بار ہو جانا
ابھی کچھ ان کہے الفاظ بھی ہیں کنج مژگاں میں
اگر تم اس طرف آؤ صبا رفتار ہو جانا
ہوا تو ہم سفر ٹھہری سمجھ میں کس طرح آئے
ہواؤں کا ہماری راہ میں دیوار ہو جانا
ابھی تو سلسلہ اپنا زمیں سے آسماں تک تھا
ابھی دیکھا تھا راتوں کا سحر آثار ہو جانا
ہمارے شہر کے لوگوں کا اب احوال اتنا ہے
کبھی اخبار پڑھ لینا کبھی اخبار ہو جانا